گھر کی چڈیاں 1 سے 11 تک

                                                                            


بھئی چڈی تو چڈی ہوتی ہے۔ گھر کی ہو یا باہر کی۔ مگر یہ بات تو ماننی پڑے گی۔ کہ گھر کہ چڈی میں جو نشہ ہے وہ باہر کی چڈیوں میں نہیں۔۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ نشہ ہی تو ہوتا ہے۔۔۔ اور یہ بات مجھے پہلے نہیں پتہ تھی۔ یہ بہت لمبے وقت میں مختلف تجربات اور تجزیات کے بعد سمجھ آئی۔ اور یہ کہانی انہی تجربات اور تجزیات کی ہے۔

 

تو آگے بڑھنے سے پہلے میری فیملی کا مختصر تعارف۔ میرا نام پرویز ہے۔ بچپن میں سب مجھے پپو کہتے تھے۔ ہم کراچی کے علاقے ناظم آباد میں رہتے تھے۔ ابو کی پرچون کی دوکان تھی۔ امی ریٹائرڈ ٹیچر تھی۔ ویسے انکی عمر ریٹائرمنٹ کی تھی نہیں۔ وہ گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر ہوتی تھیں۔ شادی کے بعد بھی ملازمت کرتی رہیں۔ مگر میری بڑی بہن کی پیدائش کے بعد انہیں پری میچور ریٹائرمنٹ لینی پڑی۔۔ ارے ہاں۔ اپنی کیوٹ بہن (اور اس کہانی کا سب سے اہم کردار) کے بارے میں بتانا تو میں بھول ہی گیا۔

میری بہن مجھ سے پانچ سال بڑی ہے۔ اسکا نام رضیہ ہے۔ اور سب اسے رجو کہتے ہیں ۔۔ ہم بس دو بہن بھائی ہیں۔ امی اکلوتی ہیں۔ اور ابو کے ایک چھوٹے بھائی یعنی میرے چچا گلشن میں رہتے ہیں۔ انکا کپڑے کا بہت بڑا کاروبار ہے (وہ اور انکی فیملی بھی کہانی کا اہم حصہ ہیں مگر ابھی نہیں)

 

تو کہانی شروع ہوتی ہے۔ 90 کی دہائی میں۔ جب میں چھ سال کا ہوا اور مجھے بالآخر اسکول ایڈمیشن کے لیے لیجایا گیا۔ دراصل ہوا یہ کہ میری بہن گورنمنٹ اسکول میں پڑھتی تھی۔ اور پرائمری پاس کرچکی تھی۔ جب میری باری آئی تو امی نے ضد پکڑ لی کہ مجھے سرکاری اسکول نہیں بھیجیں گی۔ وہاں کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ ابو کو بھی اعتراض نہیں تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ کسی پرائویٹ اسکول مہنگے ہوتے ہیں۔ ابو میرے اچھے مستقبل کے لیے یہ قربانی دینے کو تیار تھے۔ مگر اس میں بھی دو مسائل تھے۔

 

ایک یہ کہ میں چھوٹا تھا۔ اکیلا اسکول نہیں جاسکتا تھا۔ اور دوسرا یہ کہ دونوں بہن بھائیوں کو الگ۔الگ اسکول بھیجنے سے زمہ داریاں بھی ڈبل ہوجاتیں۔

امی بضد تھیں کہ رجو (میری بہن) کو بھی بھی پرائویٹ اسکول بھیج دیا جائے۔ ابو بھی چاہتے تھے۔ مگر دو بچوں کو ایک ساتھ پرائویٹ اسکول کا خرچہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ ابو بہت پریشان تھے۔

 

ایسے میں فرشتہ بن کے آئے میرے چچا۔ انہوں نے ابو کو کہا پپو کا (میرا) خرچ برداشت کرلیں۔ رجو کا وہ خود اٹھا لینگے۔ کیونکہ انکا اکلوتا بیٹا بھی اسی اسکول میں داخل ہونے والا تھا۔ (جو نارتھ ناظم آباد میں واقع تھا) مگر انکی شرط تھی کہ یہ بات کسی بھی طرح انکی بیگم یعنی میری چچی کو پتہ نہ چلے۔ وہ بہت چڑچڑے مزاج کی مغرور خاتون تھیں۔ ہر وقت میرے ابو کو غربت کے طعنے دیتی تھیں۔

 

ویسے یہاں ایک چیز کلیئر کردوں کہ یہ سب باتیں مجھے بہت بعد میں پتہ چلیں کیونکہ تب تو میں بہت چھوٹا تھا۔

قصہ مختصر یہ کہ ہم دونوں بہن بھائی ایک نئے اچھے اسکول میں داخل ہوگئے۔ میں تو پڑھائی میں اچھا تھا۔ مگر رجو بہت کمزور تھی۔ ایک تو اسکا دھیان پڑھائی سے زیادہ کھیل میں رہتا تھا۔ اوپر سے وہ سرکاری اسکول میں پانچ سال پڑھی تھی۔ اس لیے اچھے اسکول کے معیار سے بہت پیچھے تھی۔ اکثر اسکی شکایتیں گھر آتی تھی۔ مگر پھر وہ دن آیا۔ جس نے ہم سب کی۔ خصوصاً میری زندگی بالکل بدل کے رکھ دی۔

 

ہمیں اسکول میں چھ ماہ ہوچکے تھے۔ اور اب تک رجو ہر ٹیسٹ میں فیل ہوتی رہی تھی۔ پھر مڈ ٹرم ایگزام آگئے۔ رجو کے چہرے سے ظاہر تھا کہ اسے فیل ہونے کا ڈر لگا ہوا ہے۔۔

 

اور جب ایگزام شروع ہوئے تو وہی ہوا۔ جسکا ڈر تھا۔

 

ایک دن پیپر کے دوران رجو چیٹنگ کرتے ہوئے پکڑی گئی۔ اس کے ٹیچر شہاب سر تھے جو بہت سخت انسان تھے۔ رجو کی جان نکلی پڑی تھی کہ شہاب سر پتہ نہیں اس کا کیا حشر کریں گے ۔ مگر حیرت انگیز طور پر شہاب سر نے اس وقت اسے کچھ نہیں کہا۔

اور جب ساری کلاس پیپر دے کے گھر چلی گئی تو سر نے رجو کو روک لیا۔ جب چھٹی کا وقت ہو گیا تو میں رجو کی کلاس میں ایا۔ وہاں سب لڑکیاں جا چکی تھیں صرف رجو اور شہاب پر بیٹھے تھے۔ شہاب سر نے مجھے کہا کہ بیٹا اپ باہر لان میں جا کے بیٹھو۔

میں باہر لان میں اگیا اور کھیلنے لگا ۔ اسکول بہت بڑا تھا پورا سکول خالی ہوتے ہوتے گھنٹوں لگ جاتے تھے۔ اور ویسے بھی چھٹی کے وقت تقریبا سارا سٹاف گیٹ کی طرف ہوتا تھا اندر کلاسز میں کوئی نہیں ہوتا تھا

میں تھوڑی دیر تک لان میں کھیلتا رہا لیکن بہت جلدی بور ہو گیا۔ کیونکہ اس پاس کوئی بچہ نہیں تھا۔ میں واپس کلاس روم کی طرف گیا۔ دروازہ اندر سے لاک تھا۔ میں ساتھ والی کھڑکی کے پاس گیا۔ وہ بھی بند تھی۔ مگر شیشے سے اندر کا منظر صاف دکھ رہا تھا۔ شہاب سر اپنی چیئر پر بیٹھے تھے۔ اور رجو انکے سامنے کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اندر سے ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھی۔ جنہیں سننے کے لیے مجھے کان لگانا پڑا۔ شہاب سر کہہ رہے تھے۔

تمہیں پتہ ہے نا ہمارے اسکول میں چیٹنگ کرنا کتنا بڑا جرم ہے۔ اگر میں نے پرنسپل کو بتا دیا تو وہ تمہیں ایکسپیل کر سکتے ہیں۔ اور تمہارے امی ابو کی جو بے عزتی ہوگی وہ الگ۔

رجو پہلے ہی ڈر کے مارے کانپ رہی تھی۔ اب باقاعدہ رونے گڑگڑانے لگی۔ بولی۔ سر پلیز انکو مت بتائے گا میں آپکے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔

 

میں کیا کر سکتا ہوں۔ جو کیاہے بھگتنا پڑے گا۔

 

رجو کی مزید ہچکیاں بندھ گئی۔ سر۔۔ پلیز مجھے معاف کردیں۔ آپ جو بولینگے میں کرونگی۔ بس کسی کو بتائیے گا مت۔ پلیز سر۔

 

شاید یہی وہ جملہ تھا جسا شہاب سر انتظار کر رہے تھے۔

 

پکی بات ہے۔ جو بولونگا کروگی؟

رجو فوراً آنسو صاف کرنے لگی اور بولی۔۔ جی سر۔۔ میرے بھائی کی قسم۔

 

ٹھیک ہے۔ پھر میرا ایک کام کرو۔ یہ کہہ کر شہاب سر نے اپنی پینٹ کی زپ کھولی۔ اور اندر سے اپنی للی باہر نکالی۔ (جو کہ اصل میں لنڈ تھا۔ مگر تب مجھے اسکا نام تک نہیں پتہ تھا) میرے پاس بھی للی تھی۔ لیکن انکی تو بہت بڑی تھی۔ اور کڑک بھی۔

مگر میں تو صرف حیران تھا۔ رجو کی تو جیسے چیخ نکل گئی۔

یہ آپ کیا کر رہے ہیں سر؟

 

رضیہ بیٹی۔۔۔ شہاب سر مکار لہجے میں بولی۔۔ ابھی تم نے ہی کہا تھا۔ جو بولونگا.  کروگی۔۔

 

لیکن سر۔۔۔

 

لیکن ویکن کروگی۔ تو یہاں سے سیدھا پرنسپل آفس جاونگا۔۔ منظور ہے؟

 

رجو کی پھر سے جان نکل گئی۔ وہ بولی۔۔ نہیں نہیں سر۔۔ پلیز۔۔

 

تو تم اسے ٹھنڈا کرو۔ میں آج کا دن ہمیشہ کے لیے بھول جاونگا۔

 

باوجود اسکے کہ میں بہت چھوٹا تھا۔ اور یہ سب سمجھ نہیں پارہا تھا۔ مگر اتنا اندازہ تھا کہ یہ سب غلط ہورہا ہے۔ رضیہ بہت معصوم تھی۔ یقیناً شہاب سے اسکے ساتھ ظلم کر رہے تھے۔

رجو نے پوچھا۔۔ ٹھیک ہے سر۔۔ کیا کروں؟



 

شہاب سر نے رضیہ کا ہاتھ پکڑ کے اپنی للی پر رکھ دیا۔ رجو نے فوراً ہاتھ ہٹا لیا۔ مگر شہاب سر کی خونخوار نظریں دیکھ کر پھر پکڑ لیا۔

سر نے اسے للی ہلانے کو کہا۔ وہ ہلانے لگی اور سر آنکھیں بند کرکے کرسی سے ٹیک لگا کربیٹھ گئے۔ کافی دیر وہ ہلاتی رہی۔ اور سر عجیب عجیب سی آوازیں نکالتے رہے۔

پھر بولے۔۔ رکو۔۔ رجو فوراً رک گئی۔

 

اب اسے منہ میں لو۔۔ رجو کا چہرہ فق ہوگیا۔

 

(

یہ بات سن کر رضیہ ہل گئی ۔ مگر اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا ۔ وہ جھکی اور سر کی للی منہ میں لے لی۔ مگر ایک ہی جھٹکے اٹھی اور تھوکنے لگے۔ شہاب سر نے دوبارہ اسے اپنے پاس بلایا اور زبردستی اپنی للی اس کے منہ میں دے دی۔

وہ مجبورا للی پہ زبان پھیرتی رہی۔۔ سر کو شاید بہت مزہ ا رہا تھا ان کے منہ سے عجیب عجیب اوازیں نکل رہی تھیں۔ پھر انہوں نے دونوں ہاتھ سے رضیہ کا سر پکڑ لیا اور زور زور سے اپنے للی پر رگڑنے لگے۔ 

شاید رضیہ کا دم گھٹ رہا تھا وہ دونوں ہاتھوں سے سر سے خود کو چھڑانے لگی ۔ مگر شہاب سر نے بڑی مضبوطی سے اس کا سر پکڑا ہوا تھا اور زور زور سے اپنی للی اس کے منہ سے اندر باہر کر رہے تھے ۔۔ پھر سر نے زوردار چیخ ماری اور ایک زوردار جھٹکا کھایا۔ اور رضیہ کو چھوڑ دیا ۔ رضیہ دور ہٹی اور الٹی کرنے لگی۔ اس کے منہ سے ڈھیر سارا سفید مادہ نکل رہا تھا۔

 

یہاں مجھے کچھ سمجھ نہیں ارہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ میں بس حیران پریشان دیکھ رہا تھا۔ رضیہ وہاں سے بھاگی اور سیدھی واش روم کی طرف چلی گئی۔

 

تب تک شہاب سر ٹشو پیپر سے اپنی للی صاف کر رہے تھے۔ 

 

میں وہاں سے ہٹ گیا اور تھوڑی دیر بعد رضیہ روتی ہوئی باہر ائی۔ وہ جیسے ہی باہر ائی میں نے اسے گھیر لیا۔ میں نے اس سے سب سے پہلا سوال کیا ۔۔ آپی اپ اندر کیا کر رہی تھی؟

حیرت سے مجھے دیکھا اور کہا کیا تم ہمیں دیکھ رہے تھے؟

میں نے کہا ہاں ۔ ۔ وہ مزید ڈر گئی ۔۔

 

اس نے جلدی سے میرے منہ پہ ہاتھ رکھا ۔۔ اور کہا ۔۔ ابھی جو کچھ بھی تم نے دیکھا وہ کسی کو نہیں بتاؤ گے تمہیں امی کی قسم ۔۔

 

میرے لیے امی کی قسم بہت معنی رکھتی تھی میں نے وعدہ کیا کہ کسی کو نہیں بتاؤں گا ۔

 

وہ دن یوں ہی گزر گیا اس کے بعد کافی عرصے تک کوئی خاص واقعہ نہ ہوا۔ ہمارے فائنل ایگزام ہو گئے ۔ رجو کے نمبر بہت کم ائے تھے لیکن بالاخر وہ پاس ہو گئی تھی ۔ میں بھی اگلی کلاس میں پہنچ گیا تھا۔

 

یہاں اپ کو ایک بات بتا دوں کہ میں اور رجو ایک ہی کمرے میں سویا کرتے تھے۔ ہمارے گھر میں کل دو کمرے تھے ایک میں امی ابو اور میں سوتے تھے دوسرے میں رجو اکیلی ۔۔ پھر جب میں تھوڑا بڑا ہوا تو امی نے مجھے بھی رجو کے کمرے میں سونے کے لیے بھیج دیا۔

 

ہمارے کمرے کے ساتھ ایک اٹیچ باتھ روم تھا۔ ایک دن میں صبح صبح نہانے گیا تو دیکھا کہ باتھ روم کی کھونٹی پر ایک چڈی ٹنگی ہوئی ہے۔ یہ یقینا میری چڈی نہیں تھی کیونکہ کافی بڑی تھی۔ اخر یہ کس کی چڈی تھی میں ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگا ۔ اس میں سے عجیب سی بدبو ا رہی تھی ۔ ابھی میں اس چڈی کو ٹٹول ہی رہا تھا ۔ کہ رجو چلاتی ہوئی ائی ۔۔ پپو یہ کیا کر رہے ہو ۔۔

 

یہ کہہ کر اس نے میرے ہاتھ سے چڈی چھین لی اور وہاں سے چلی گئی ۔۔ میں اس کے پیچھے پیچھے ایا اور اس سے پوچھا یہ کس کی چڈی ہے ؟

 

وہ بولی کسی کی بھی ہو تمہیں کیا لینا دینا ؟ میں نے کہا بتاؤ نا ۔۔

میرے ضد کہہ رہے ہیں پر وہ کہنے لگی یہ میری چڈی ہے ۔۔۔ اس کی یہ بات سن کر میں زور زور سے ہنسنے لگا ہا ہا ہا تم بھی چڈی پہنتی ہو ؟

وہ بولی ہاں تو ؟ میں نے کہا پہلے تو نہیں پہنی تھی اب کیا ہوا ؟

تو وہ بولی تم ابھی چھوٹے ہو نہیں سمجھو گے ۔۔ بس ائندہ میری کسی بھی چیز کو ہاتھ مت لگانا۔۔

 

پھر کافی دن اور گزر گئے ۔ ایک دن میں اسکول کے گراؤنڈ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔ کہ ایک بچے نے مجھے ا کر دھکا دیا اور میں گر گیا ۔۔ میں غصے سے اٹھا اور ایک زوردار تھپڑ اس بچے کے منہ پر دیا ۔۔ وہ لڑکا عمر میں مجھ سے چھوٹا تھا اور صحت میں بھی کم ۔۔ وہ ساتھ والی دیوار کے پاس گرا اور اس کا سر دیوار سے ٹکرایا اور خون بہنے لگا ۔۔ یہ دیکھ کر پورا سکول جمع ہو گیا ۔۔ میری ٹیچر مجھے پکڑ کے پرنسپل کے پاس لے کے گئی ۔ پرنسپل نے مجھے تھوڑا سا ڈانٹا اور کہا کہ کل اپنی والدہ کو لے کر انا۔

 

میں نے جا کر سارا ماجرہ رجو کو بتایا رجو بہی ڈر گئی ۔۔ بہرحال اب امی کو تو بلانا ہی تھا ۔۔ ہم نے چپکے چپکے امی کو بتایا تاکہ ابو کو پتہ نہ چلے ۔۔ امی بھی ٹینشن میں اگئی مگر انہوں نے کہا کہ صبح میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔

اگلے دن امی ابو کو بتائے بغیر ہمارے ساتھ اسکول گئی۔ میں اپنی کلاس میں چلا گیا اور امی پرنسپل کے افس میں۔۔ میں بہت ڈرا ہوا تھا کہ اج تو میری شکایت ہو جائے گی اور امی مجھے بہت ڈانٹیں گی ۔ مگر جب اسکول ختم ہوا تو اور امی سے میری ملاقات ہوئی ۔ تو امی بہت خوش اور مطمئن نظر ا رہی تھی  ۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو امی بولی ارے کچھ نہیں ۔ اپ کے پرنسپل صاحب تو ہمارے جاننے والے نکلے ۔۔ میں جس سکول میں ٹیچنگ کرتی تھی وہاں یہ میرے سینیئر ہوتے تھے ۔۔ اب دیکھو یہاں پرنسپل بن چکے ہیں ۔ میں نے بھی سکون کا سانس لیا کہ چلو پرنسپل صاحب امی کے جاننے والے نکل ائے تو میری جان بچ گئی۔

اس وقت ہم خوشی خوشی گھر اگئے لیکن اس دن کے بعد میں نے امی کی روٹین میں ایک عجیب سی چینجنگ دیکھی ۔

 

 

امی اب ہر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی بہانے سے ہمارے اسکول چکر لگاتیں۔  کبھی کہتی تمہاری ٹیچر سے بات کرنی ہے۔  کبھی کہتی وہیں قریب کام سے جانا ہے۔  پھر وہ پرنسپل آفس جاکر گھنٹوں تک بیٹھی رہتیں۔ 

 

میں نے کئی بار امی کو پرنسپل سے کھلکھلا کر باتیں کرتے سنا۔  یہاں میں آپکو انکا حلیہ بھی بتا دوں۔  انکا نام حماد تھا۔  انکی عمر پچاس کے آس پاس ہوگی۔  وہ لمبے چوڑے کسرتی جسامت کے انسان تھے۔ ویسے وہ بڑے سخت گیر قسم کے تھے۔  مگر جب امی سے بات کرتے تو بڑی نرمی اور ہنسی مسکراہٹ کے ساتھ ۔

ایک دن کی رضیہ کی طبیعت خراب تھی۔ مجھے اکیلے اسکول جانا تھا امی نے کہا کہ میں تمہیں چھوڑ اتی ہوں اور واپسی پر ساتھ لے اؤں گی ۔

 

 ہمارا اسکول صبح نو بجے لگتا تھا اور دو بجے چھٹی ہوتی تھی ۔ اس پانچ گھنٹے کے دوران امی مسلسل حماد سر کے روم میں بیٹھی رہی۔ پھر جب چھٹی ہو گئی تو میں امی کے پاس ایا اور امی نے مجھے باہر رکنے کو کہا۔ تھوڑی دیر میں پورا سکول خالی ہو گیا مگر ہم لوگ اسکول میں ہی تھے۔ میں بہت بور ہو رہا تھا کیونکہ امی جانے کا نام نہیں لے رہی تھی اور حماد سر ان سے مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہے تھے ۔

 

بالاخر میں ان کے کمرے کے پاس گیا اور دروازے سے چھپ کر ان کی باتیں سننے لگا ۔ حماد سر کہہ رہے تھے ۔۔

شبانہ ۔۔ وہ بھی کیا دن تھے ۔۔ دل کرتا ہے کاش وہ دن دوبارہ واپس ا جائیں۔

امی بولی دل تو میرا بھی یہی چاہتا ہے ۔۔ مگر وقت بدل گیا ہے ۔ میں شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہوں ۔۔ سر بولے ۔ میری شادی کو بھی 20 سال ہو چکے ہیں اور میرا بڑا بیٹا جوان ہونے والا ہے ۔ لیکن دل یہ باتیں کہاں دیکھتا ہے ۔ ۔

 

امی بولی جانتی ہوں اس لیے تو روز بہانے سے یہاں ا جاتی ہو ۔۔ پھر حماد سر شرارت سے بولے۔  کیوں نہ اج پھر ہو جائے ۔۔ امی بولی پاگل ہو گئے ہیں کیا یہاں  سکول میں ؟

سر نے کہا ڈرو مت یہاں کوئی نہیں ائے گا ۔۔ امی بولی اور میرا بیٹا ؟

 

ارے وہ چھوٹا ہے اسے کسی کام میں لگا دیں گے۔ یہ سن کر امی سوچ میں پڑ گئی ۔۔ پھر وہ باہر ائیں ۔ مجھے دیکھ کر بولیں ارے تم یہیں کھڑے ہو ۔۔؟ میں نے کہا ہاں ۔۔ امی نے پرس سے پیسے نکال کر دیے۔  اور کہا جاؤ کینٹین سے سینڈوچ لے اؤ ۔۔ میں خوشی خوشی پیسے لے کر سینڈوچ لینے چلا گیا ۔ سینڈوچ تو پانچ منٹ میں ہی ختم ہو گیا اب میں دوبارہ بور ہونے لگا ۔۔

میں دوبارہ حماد سر کے روم کے پاس ایا ۔۔ مگر وہاں کوئی نہیں تھا ۔ میں امی کو ڈھونڈنے ادھر ادھر جانے لگا ۔۔ جب اسٹاف روم کے پاس سے گزرا تو مجھے وہاں سے عجیب و غریب اوازیں ا رہی تھی۔)

 

میں نے غور سے سنا تو لگا امی اندر ہی ہیں۔ میں نے دروازے سے اندر جھانکا تو امی ٹیبل پر بیٹھی تھیں اور حماد سر انکے ہونٹ چوس رہے تھے۔ مجھے بڑا عجیب لگا کہ یہ سب کیا کر رہے ہیں۔ امی تو کسی غیر مرد کے سامنے آنے گھبراتی تھی۔ آج پرنسپل صاحب کے منہ میں منہ ڈالا ہوا ہے۔

وہ دونوں ایک دوسرے میں اتنے مگن تھے کہ میری آمد کا اندازہ نہیں ہوا۔ میں بھی دروازے کی اوٹ سے چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔ کہ انکو نظر بھی نہ آسکوں۔

 

پھر سر نے امی کی قمیض میں ہاتھ ڈال دیا۔ اور انکا سینہ دبانے لگے۔ امی آہیں بھر رہی تھیں۔ پتہ نہیں انہیں درد ہورہا تھا یا مزا آرہا تھا۔۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سر نے امی کی قمیض اتار دی۔ اندر امی نے ایک چھوٹی سی بنیان پہن رکھی تھی (تب مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اسے برا کہتے ہیں)  اس بنیان کے اندر امی کے گول مٹول ابھار صاف نظر آرہے تھے۔ امی نے بھی سر کی شرٹ اتار دی تھی۔ سر کا جسم بہت تگڑا تھا۔ اب سر امی کے سینے پر لگے ہوئے تھے۔ وہ بھوکے بچوں کی طرح امی کا سینہ چوس رہے تھے۔ بہت زور زور سے نوچتے۔ اور امی کی ہلکی سی چیخ نکل جاتی۔ کافی دیر یہ چلتا رہا پھر سر نے امی کی شلوار کا ناڑا کھول دیا۔ اور شلوار نیچے گرا دی۔ امی نے اس کام میں انکا پرا ساتھ دیا۔

میں نے دیکھا اندر امی نے بڑی سی چڈی پہن رکھی ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیا چکر ہے۔۔ پہلے آپی کی چڈی نظر آئی اور اب امی کی بھی؟ یہ عورتیں چڈی کب سے پہننے لگیں؟

 دوسرے میں یوں حیران تھا کہ امی کیوں ننگی ہورہی ہیں۔ نا تو انہیں یہاں نہانا تھا۔ نہ کپڑے بدلنے تھے۔

جو بھی تھا۔ میں پہلی بار کسی عورت کو اس حالت میں دیکھ رہا تھا۔۔ وہ بھی میری اپنی امی کو۔

پھر سر نے امی کو کوئی اشارہ کیا۔ امی ٹیبل سے اتریں اور پلٹ کر کھڑی ہوگئیں۔ انکی پیٹھ سر کی طرف تھی۔ سر نے انہیں تھوڑا آگے دھکا دیا۔ اور امی نے جھک کر ٹیبل پر ہاتھ ٹکا دیے۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ امی کے کولہے سر کے بالکل سامنے تھے۔

 

پھر سر نے امی کی چڈی اتار کر نیچے ڈال دی۔ اب امی ی دو بڑے بڑے کولہے بالکل ننگے تھے۔

 

 یوں تو اب تک میں جو دیکھا وہ ویسے ہی حیران کن تھا۔ مگر

پھر جو کچھ میں نے دیکھا۔ اسکی توقع میں خواب میں بھی نہیں کر رہا تھا۔

سر۔ نے اپنی پینٹ اتار دی۔ اندر انہوں نے بھی چڈی پہنی تھی (بلکہ اسے چڈا کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا)

سر نے اسے بھی فوراً نیچے اتار دیا۔ اندر سے حماد سر کی بہت بڑی للی باہر آئی۔ جو بالکل کڑک تھی۔ میں حیران رہ گیا۔ یہ تو شہاب سر کی للی سے بھی بڑی تھی۔

 

اب کنڈیشن یہ تھی کہ امی اور سر دونوں کی شلوار پتلون اور چڈیاں۔ انکے پیروں میں الجھی پڑی تھیں۔

پھر سر نے اپنی للی کو ہاتھ سے پکڑا اور امی کے نزدیک آئے۔ انہوں نے امی کے دونوں کولہوں کے بیچ میں للی رکھی اور اندر دبانے لگے۔ امی نے منہ سے ایک آہ نکلی۔

میں مزید حیران ہوا کہ امی کے کولہوں کے بیچ میں اتنی جگہ کہاں سے آگئی کہ اتنی بڑی للی پوری اندر چلی گئی؟

 

 

 

یہاں میری حیرانی و پریشانی مسلسل جاری تھی ۔ وہاں سر کا اپنی للی امی کے کولہوں کے اندر باہر کرنا مسلسل جاری تھا۔ سر بہت زور زور سے ہل رہے تھے ساتھ امی کو ابھی دھکے لگ رہے تھے۔ دونوں کے منہ سے نہ سجھ آنے والی آوازیں نکل رہی تھی۔  یہ تکلیف تھی۔  مزا تھا۔  غصہ تھا۔  مجھے نہیں پتہ تھا۔

 

پتہ نہیں کتنی دیر یہ سب چلتا رہا۔  پھر سر کی حرکت میں بہت تیزی آگئی۔  وہ بہت زور زور سے امی کو مارنے لگے۔  پھر اچانک بالکل رک گئے۔  اور امی سمیت ٹیبل پر گر گئے۔

دونوں لمبی لمبی سانسیں لے رہے تھے پھر وہ دونوں اٹھے۔  اور جلدی جلدی کپڑے بدلنے لگے۔

میں سمجھ گیا کہ اب یہ لوگ باہر آئیں گے۔  میں فوراً وہاں سے ہٹا اور واپس لان کی طرف اگیا۔

 

تھوڑی دیر بعد امی باہر ائی اور مجھے لے کر گیٹ کی طرف انے لگی۔ ہم باہر ا کر رکشے کا انتظار کرنے لگے۔ کیونکہ اسکول وین جا چکی تھی ۔ کچھ دیر بعد ایک بڑی سی گاڑی ہمارے پاس ا کر رکی۔ میں نے دیکھا اس میں حماد سر بیٹھے تھے۔ انہوں نے امی کو کہا کہ چلو تم دونوں کو گھر چھوڑ دو۔ امی ہچکچا رہی تھی۔ انہوں نے ہلکی اواز میں سر سے کہا کہ وہاں کوئی دیکھ لے گا۔ سر نے کہا فکر مت کرو میں گھر سے تھوڑا دور اتار دوں گا۔ پھر ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔ میں پہلی بار اتنی بڑی گاڑی میں بیٹھا تھا۔ گاڑی میں اے سی چل رہا تھا جس کی ٹھنڈک بہت زیادہ تھی ۔ ہمارے گھر میں تو اے سی تھا نہیں۔

سر نے وعدے کے مطابق ہمیں گلی کے کونے پر اتار دیا۔ اور ہم دونوں گھر واپس اگئے۔ میں نے اپنے کسی بھی عمل سے امی کو یہ پتہ نہیں چلنے دیا کہ میں سب کچھ دیکھ چکا ہوں۔

 

اس واقعے کے بعد کوئی اہم واقعہ نہیں ہوا۔

البتہ ایک چینج میرے اندر ایا۔ وہ یہ کہ جنس کی طرف میرا رجحان بڑھ گیا۔ اب میں ہر چیز کو بڑی باریک بینی سے دیکھتا اور پرکھتا تھا۔ میں ہر عورت کو بہت گھور کے گھور کے دیکھتا۔ خصوصا اپی اور امی کو۔

 

وقت گزرتا رہا اور ہم سب کے اندر مختلف تبدیلیاں انے لگی۔ اور سب سے زیادہ تبدیلی میری بہن رضیہ میں۔ اس کا قد تیزی سے بڑھ رہا تھا سینے کے ابھار باہر ا رہے تھے۔اور وزن بھی زیادہ ہو رہا تھا۔

دیکھتے دیکھتے کئی سال گزر گئے۔  اب میں بچپن سے لڑکپن کی طرف ا گیا تھا۔ اب مجھے عورت مرد کے معاملات بہت حد تک سمجھ انے لگے تھے۔ اپی رضیہ کافی بڑی ہو گئی تھی. وہ اسکول ختم کرکے کالج جانے لگی تھی۔  اسکی جسامت امی سے بہت ملتی جلتی ہورہی تھی۔

 

بہر حال۔ انہی دنوں ہمارے گھر میں کچھ مسائل رہنے لگے۔ ابو دوکان کی کمائی سے گھر چلا نہیں پارہے تھے۔ ایک دن چچا نے ابو سے کہا کہ اب انہیں کاروبار بڑھانا چاہیے۔ یہ چھوٹی سی دوکان انہیں زیادہ کچھ نہیں دے سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ابو مکان بیچ دیں اور پیسے کاروبار میں لگائیں۔

 ابو بولے۔ اچھا۔۔ اور رہونگا کہاں؟

چچا بولے۔۔ کیا میرا گھر آپکا نہیں ہے؟

تین منزلہ عمارت ہے۔ اور گھر میں ہم صرف تین لوگ ہیں۔۔ آپ میرے ساتھ شفٹ ہوجائیں۔

 

نہیں۔ چھوٹے۔ میں تم پہ بوجھ نہیں بنونگا۔ اور تم گھر میں اکیلے تھوڑی ہو۔ تم جانتے ہو تمہاری بیوی جمیلہ ہمیں کچھ خاص پسند نہیں کرتی۔

 

اس سب کی فکر آپ مت کریں۔ وہ گھر میرا ہے۔ اپنی محنت کی کمائی سے بنایا ہے۔ جہیز میں نہیں ملا۔ اور جمیلہ ہوتی کون نے ہم بھائیوں کے بیچ بولنے والی۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔ کہ وہ آپ سے اس متعلق کوئی بات نہیں کریگی۔

 

ابو مان نہیں رہے تھے۔ مگر اگلے کچھ دنوں میں چچا نے مسلسل ضد کرکے انہیں منا لیا۔

 

قصہ مختصر یہ کہ ابو نے مکان اور دوکان دونوں بیچ دیے۔ اور نارتھ ناظم آباد میں ایک منی مارٹ کھول لیا۔ اور ہم چچا کے گھر اوپر والے فلور پہ منتقل ہوگئے۔

 

آگے بڑھنے سے پہلے میں چچا کی فیملی کا مختصر تعارف کرا دوں۔



 چچا کی بیگم جمیلہ چاچی تھی۔ ان کا ایک بیٹا تھا جو مجھ سے دو تین سال بڑا اور رضیہ سے دو تین سال چھوٹا تھا۔ جمیلہ چچی اور ان کا بیٹا دونوں تھوڑے سے مغرور سے تھے۔ حالانکہ ان کا بیٹا خالد میرا دوست تھا لیکن وہ بھی کبھی کبھی اپنے ابا کے پیسوں پر ناز کرتا نظر اتا تھا۔

جبکہ جمیلہ چاچی میں تو یہ عادت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ وہ جب بھی ملنے اتی ہیں میری امی کو بند الفاظ میں غربت کے طعنے دیتی۔

ان کی جسامت بہت بھاری تھی۔ میری امی کافی سلم سمارٹ لیکن صحت مند تھی۔ جبکہ چاچی کا جسم خاصہ بھاری تھا خصوصا ان کی چھاتیاں اور ان کے کولہے۔

جب ہم ان کے گھر میں شفٹ ہوئے تو خالد کا رویہ ہم دونوں کے ساتھ بالکل بدل گیا۔ اب وہ ہم دونوں کے ساتھ بہت گھل مل کے رہتا تھا۔ خصوصا رضیہ آپی کی طرف وہ خوب توجہ دیتا۔ چاچی کی رویے میں بھی بہت تبدیلی ائی تھی۔ لیکن ابھی ان میں خاصہ غرور جھلکتا تھا۔

 

ایک دن گھر کے سب بڑے کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ گھر میں بس ہم تین تھے۔  چھٹی کا دن تھا اس لیے کوئی خاص کام نہیں تھا۔ ہم تینوں نے کھیلنے کا پروگرام بنایا ۔ میں لوڈو کھیلنا چاہتا تھا لیکن خالد بضد تھا کیا چھپن چھپائی کھیلیں گے۔میں نے کہا یار یہ تو بچوں کا کھیل ہے۔ کہنے لگا مزہ ائے گا اگر کھیلیں گے تو ۔۔ میں اس کی بات مان گیا۔

پہلے میں نے خالد کی انکھوں پر پٹی باندھی اور میں اور رضیہ جا کر چھپ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے ہم دونوں کو تلاش کر لیا۔ پھر میری باری ائی۔ خالد نے میری انکھوں پر پٹی باندھ دی۔ اور بہت زیادہ کس کے باندھی تھی ۔ اس نے کئی بل دیے۔ پھر وہ دونوں کہیں جا کر چھپ گئے۔ میں گنتی مکمل کرنے کے بعد پٹی کھولنے لگا جس میں کافی وقت لگ گیا

پھر میں ان دونوں کو ڈھونڈنے نکلا مگر وہ کہیں نہیں ملے۔ عموما ہم سارے کھیل اپنے فلور پر ہی کھیلتے تھے۔ لیکن میں نے اوپر والے فلور کا ایک ایک کونا چھان مارا وہ دونوں وہاں نہیں تھے۔

میں نیچے والے فلور پر ایا وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ اب بس چھت والا فلور باقی تھا۔ وہاں بس دو بڑے کمرے تھے جو خالی تھے ایک بڑا صحن تھا اور ایک پرانا سٹور روم تھا ۔ جہاں گھر کا کاٹھ کباڑ جمع ہوتا تھا۔ میں دونوں کی تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا۔ مجھے سٹور روم میں سے ہلکی اواز ائی اور میں سمجھ گیا کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک وہاں ہے۔ میں چپکے چپکے اس طرف بڑھا تاکہ اسے سرپرائز کر سکوں۔ جب قریب پہنچا تو اندازہ ہوا کہ اندر سے ایک نہیں دو اوازیں ا رہی ہیں۔ یہ اواز یقینا رضیہ اور خالد ہی کی تھی

رضیہ بول رہی تھی کیا کر رہے ہو میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا ہے۔

خالد بولا۔ بس دو منٹ کوئی نہیں دیکھے گا۔

 

اب تو میرا اندر جھانکنا بنتا تھا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ اس لیے کچھ نظر نہیں ا رہا تھا۔ اتنے میں ہوا کا جھونکا ایا اور کھڑکی ہلکی سی کھل گئی ۔ سورج کی روشنی اندر داخل ہوئی تو میں نے دیکھا۔ خالد رضیہ اپی کی قمیض میں ہاتھ ڈالے اندر ان کے سینے دبا رہا تھا۔ اور رضیہ مچل رہی تھی۔

یہ دیکھ کر مجھے بہت غصہ ایا۔ میں نے سوچا ابھی اندر جاؤں اور خالد کو دو ہاتھ لگاؤں۔ پھر نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میں نے باہر کھڑے ہو کر ہی اگے کی کاروائی دیکھنے کا فیصلہ کیا۔

اب رضیہ نے کسمانا بند کر دیا تھا۔ مگر منہ سے منع کر رہی تھی ۔ خالد پلیز مت کرو۔ ۔

مگر خالد رکا نہیں۔ اب اس کے ہاتھ بڑھ کر رضیہ کی شلوار تک جا پہنچے وہ اندر ہاتھ ڈال کر شاید اس کی کولہے دبا رہا تھا۔ رضیہ نے اب منہ سے بھی بولنا بند کر دیا تھا۔ شاید وہ بھی رسماً منع کر رہی ہو اسے بھی مزہ ا رہا تھا۔ پھر خالد کا ہاتھ اس کے سامنے کی طرف ایا ۔ شاید وہ چوت میں انگلی کرنا چاہ رہا تھا۔ مگر اب رضیہ کی برداشت ختم ہو گئی۔ اس نے جھٹکے سے خالد کا ہاتھ باہر نکالا اور پیچھے ہٹ گئی۔

بس اب بہت ہوا اج کے لیے اتنا کافی ہے ۔۔

خالد بولا کم ان یار۔۔ روز روز کہاں ایسا موقع ملتا ہے۔۔ رضیہ بولی جانتی ہوں ۔۔ مگر جب بھی موقع ملتا ہے تو میں کبھی منع نہیں کرتی ۔ اج پپو گھر میں ہے اس لیے منع کر رہی ہوں۔

 

اب میں سب سمجھ چکا تھا یہ سب کچھ رضیہ کی رضا مندی سے ہو رہا تھا۔ یعنی میرا خالد سے ناراض ہونا یا اس پر شک کرنا بیکار تھا۔

میں خاموشی سے وہاں سے ہٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر اگئے اور مجھے دیکھ کر کہنے لگے تم نے تو ہمیں تلاش ہی نہیں کیا۔ میں نے کہا میری طبیعت صحیح نہیں ہے۔ میں ارام کرنے جا رہا ہوں یہ کہہ کر میں اپنے روم میں چلا گیا

 

 

 

 

 

 

 

 

میں کمرے میں جاکر سونے کا ناٹک کرنے لگا۔ دراصل میں رضیہ کا ری ایکشن دیکھنا چاہتا تھا۔

 

کچھ دیر بعد وہ آئی اور بولی۔ کیوں کر رہے ہو یہ سب؟

 

میں نے انجان بنتے ہوئے کہا ۔۔ کیا کہہ رہی ہو۔

وہ بولی۔ تم نے سب دیکھ لیا تھا نا۔۔۔ میں چپ رہا۔۔

 

وہ بولی۔۔ پھر کچھ بولا کیوں نہیں اسے؟

 

کیا بولتا۔۔ جب تم خود ہی راضی تھیں۔

میں اپنی مرضی سے راضی نہیں تھی۔ میری مجبوری ہے۔

 

کیا مجبوری ہے۔ مجھے بھی تو بتاو۔

یہ کہ ہم اسکے گھر میں رہتے ہیں۔

یہ اسکا نہیں۔ چچا کا گھر ہے۔

 

ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میں نے بھی یہی کہا تھا۔ اس نے بولا کہ جاو۔۔ شکایت کردو ۔۔ کیا ہوگا؟ مجھے تھوڑا سا ڈانٹیں گے۔ شاید ایک آدھ ہاتھ بھی مار دیں۔ مگر تم بدنام ہوجاو گی۔ تمہارے ابو کو پتہ چلے گا۔ تو ایک سیکنڈ اس گھر میں نہیں رکیں گے۔ تم بے گھر ہوجاو گی۔

 

مجھے اب خالد پہ غصہ آرہا تھا۔ واقعی رضیہ مجبور تھی۔

 

اچھا سنو۔۔ وہ صرف یہی کرتا ہے جو آج کیا تھا۔۔ یا؟

 

نہیں۔۔ وہ جلدی سے بولی۔ میں نے اسے کبھی آگےنہیں بڑھنے دیا۔

ٹھیک ہے۔ میں کچھ کرتا ہوں۔

 

اچھا۔۔ کیا کروگے تم؟

 

تم ٹینشن مت لو۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔

 

حالانکہ سچ یہ تھا کہ میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ میں بس جھوٹی تسلی دے رہا تھا۔ اور وہ بھی میری تسلی میں آگئی۔ اور وہاں سے چلی گئی۔

میں بستر پہ لیٹا کافی دیر سوچتا رہا کہ کیا کرنا چاہیے۔ کافی دیر سوچنے کے بعد مجھے ایک حل سوجھا۔۔ گوکہ خطرہ بہت زیادہ تھا۔ مگر رسک تو لینا ہی تھا۔

یہ ترکیب آنے کے بعد میں اطمینان سے سوگیا۔

 

پھر کچھ دن یونہی گزر گئے۔

 

کچھ دن بعد ہماری گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو گئی۔ امی رضیہ کو لے کر نانی کے گھر چلی گئی۔ وہ ہر سال جاتی تھی اور کم از کم دو سے تین ہفتے رک کر اتی تھی۔ ابو اور چچا کام پر چلے جاتے تھے۔ خالد اپنی کلاسز جوائن کر لیتا تھا۔ اس کے ابا اسے سپورٹس کلاسز سویمنگ کلاسز اور کوچنگ کلاسز ہر جگہ بھیجتے تھے۔ مختصرا یہ کہ میں اور چاچی اکثر گھر پہ اکیلے ہوتے تھے۔ اور یہی میرے لیے گولڈن چانس تھا۔

یوں تو عموما چاچی اپنے فلور پر ہوتی تھی اور میں اوپر والے فلور پہ۔ مگر کبھی کبھار  سامنا ہو جاتا تھا۔ ایک دن ایسا ہی موقع تاڑ کر میں نیچے ایا دیکھا تو چاچی ائینے کے پاس کھڑی بال بنا رہی تھی۔ شاید ابھی ابھی نہا کے ائی تھی کیونکہ ان کے تمام بال بھیگے ہوئے تھے اور جسم بھی۔ سچ پوچھوں تو چاچی غضب کی لگ رہی تھی۔ میں نے چاچی کو کہا چاچی مجھے اردو بازار جانا ہے۔ وہ رکے لہجے میں بولی تو جاؤ میں کیا کروں۔ میں نے کہا میں اکیلا نہیں جا سکتا امی نے منع کیا ہے۔

تو؟

اپ میرے ساتھ چلیں نا ۔۔ ۔

 

کیا؟ میں ؟ کیوں ؟

 

چاچی امی ہوتی تو انہی کے ساتھ جاتا میرا جانا بہت ضروری ہے۔

نہیں بھئی۔۔  میں نہیں جا سکتی مجھے بہت کام ہے۔

چاچی پلیز چلیں نا ابھی تو سب گھر سے باہر ہیں کام اپ بعد میں بھی کر سکتی ہیں۔

تم کیوں پیچھے پڑے ہوئے ہو؟

چاچی پلیز مجھے کچھ بکس چاہیے۔ چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے ریویژن کرنا ہے۔۔

 

او ہو۔۔  اچھا کتنا ٹائم لگے گا۔

میں خوش ہو گیا بس انا جانا کرنا ہے۔ میں رکشا لے کر اتا ہوں۔۔

ٹھیک ہے جلدی انا۔

 

میں جانے لگا اور واپس پلٹ کر بولا۔۔ چاچی ایک بات بولوں

۔

بولو ۔۔

۔

اج اپ بہت بیوٹی فل لگ رہی ہیں۔

میں نے یہ کہا اور فورا پلٹ کر واپس چلا گیا۔ لیکن ایک لمحے میں میں نے اندازہ لگا لیا کہ میرا یہ جملہ سن کر ان کے چہرے پر شدید حیرت کے اثار تھے۔

یہ چاچی کی طرف ڈالا گیا میرا پہلا دانہ تھا ۔۔ اب چڑیا جال میں پھنستی ہے یا نہیں یہ تو وقت نے بتانا تھا

 

 میں اوپر گیا اور اچھے سے تیار ہو گیا۔ پھر باہر جا کر رکشہ لایا اور تھوڑی دیر بعد ہم اردو بازار کی جانب گامزن تھے۔ امی باہر جاتے وقت برقعہ پہنتی تھی لیکن چاچی کو عادت نہیں تھی وہ صرف دوپٹہ یا چادر لیتی تھی۔ شاید انہیں لگتا تھا کہ ماڈرن عورتیں برقع نہیں پہنتی اور انہیں ماڈرن بننے کا بہت شوق تھا۔

رکشے میں میں چاچی سے بالکل چپک کے بیٹھا تھا۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ تھوڑا انکمفرٹیبل فیل کر رہی تھی لیکن منہ سے کچھ نہیں بولی۔

 

اردو بازار پہنچ کر میں نے ظاہری طور پر ایک دو چیزوں کی شاپنگ کی جن کی مجھے کچھ خاص ضرورت نہیں تھی۔ میرا اصل مقصد تو چاچی کے ساتھ باہر انا اور وقت بتانا تھا۔

فارغ ہو کر میں دوبارہ چاچی کے پاس ایا اور کہا چاچی چلو گھر چلیں۔

ہم رکشے میں بیٹھ کر واپسی گھر کی طرف گامزن تھے۔ راستے میں میں نے رکشے والے کو رکشہ روکنے کے لیے کہا۔ چاچی نے پوچھا کیا ہوا۔ میں نے کہا چاچی بھوک لگی ہے پہلے کچھ کھا لیں۔ چاچی بولیں گھر چل کے کھا لینا یہاں بیچ سڑک پہ کھاؤ گے کیا۔ میں بولا گھر بہت دور ہے اور یہیں قریب میں ایک ریسٹورنٹ ہے پہلے وہاں کچھ کھا لیتے ہیں۔

 

مجبورا چاچی مان گئی اور میرے ساتھ ا گئ۔

یہ ایک چھوٹا سا سنوپی جیسا ریسٹورنٹ تھا۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اس جگہ کی ریپوٹیشن اچھی نہیں ہے

یہ جگہ ڈیٹ مارنے اور چھچھورے پن کی لیے مشہور تھی۔ اندر جاتے ہی چاچی کا منہ بن گیا۔ کیونکہ وہاں کھلے عام سگریٹ اور شیشہ چل رہا تھا۔ لڑکے لڑکیاں سب انجوائے کر رہے تھے۔

میں نے اپنے لیے سینڈونچ منگایا چاچی نے اورنج جوس۔۔ پھر چاچی بولیں۔ جلدی کرو۔ یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے کہا کیا ہوا تو بولی دیکھو یہاں کیا کیا ہو رہا ہے ۔ میں نے کہا اپ ان سب چیزوں کو اگنور کریں صرف کھانے پہ توجہ دیں

۔ وہ بولی دیکھ رہے ہو۔ یہاں سب لڑکے لڑکیاں آئے ہوئے ہیں میرے جیسی کوئی عورت یا آدمی بھی نظر ا رہا ہے؟

 

میں نے شرارتی لہجے میں کہا تو کیا ہوا اپ کسی ینگ لڑکی سے  کم ہیں  کیا۔۔

 

یہ سن کر ان کے چہرے پر سرخی سے اگئی۔ مصنوعی  غصے سے بولی۔۔ اچھا بکو مت۔

میں جان بوجھ کر لیٹ کر رہا تھا کہ چاچی یہاں کا ماحول دیکھیں اور انجوائے کریں

بہرحال کھانا ختم ہوا جب بل دینے کی باری ائی تو میں نے جیب سے پیسے نکالے۔ میں اگر چاچی نے منع کر دیا۔ بولی۔۔ رہنے دو کل کو تمہاری اماں مجھے طعنے دے گی کہ میرے بچے کو کچھ کھلایا بھی نہیں۔

مگر میں جانتا تھا کہ یہ بہانہ ہے ۔۔ وہ اپنی خوشی سے بل دے رہی ہیں۔

 

گھر واپس ا کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور میں اوپر ۔

 

 میں نے ایک ہی دن میں دو مرتبہ چاچی کو لائن ماری تھی اور مجھے پورا یقین تھا اس کا رسپانس اچھا ملے گا ۔

اس کے بعد کافی دن تک کچھ نہیں ہوا لیکن چاچی کے رویے میں بہت تبدیلی اگئی۔ اب وہ میرے ساتھ کبھی روکھے لہجے میں بات نہیں کرتی تھی۔ بلکہ جب بھی کچھ اچھا بنتا میرے کھانے لیے خاص طور سے بھیجتی۔

پھر ایک دن بالاخر وہ لمحہ ا ہی گیا جس کے لیے میں نے سب پلاننگ کی تھی



 ہوا یہ کہ ایک دن چاچی کے بھائی کے گھر سے فون ایا۔ کہ ان کی بھابھی کی طبیعت خراب ہے ان کے پاس کورنگی جانا تھا۔ خالد بزی تھا اور چچا گھر پہ تھے نہیں۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنی خدمات پیش کی۔ اور کہا میں اپ کو لے چلتا ہوں۔ اتفاق سے گھر میں خالد کی بائیک بھی موجود تھی۔ پہلے تو چاچی نے نخرے دکھائے پھر مان گئے۔

تھوڑی ہی دیر بعد میں چاچی کو اپنے پیچھے بٹھائے کورنگی جا رہا تھا۔ ابھی ہم بلوچ کالونی کا پل اترے ہی تھے کہ کھڈوں کے باعث میری بائک پھسل گئی چاچی اور میں ہم دونوں کیچڑ میں جا گرے۔ چوٹ تو نہیں لگی۔ مگر اٹھے تو کپڑوں کی حالت خراب تھی۔ ہسپتال ابھی بھی خالہ خاصہ دور تھا۔ میں نے چاچی سے پوچھا اب کیا کریں۔ چاچی بولی اس حالت میں ہسپتال تو جا نہیں سکتے اور گھر بھی بہت دور ہے۔ میں نے کہا پھر کیا کیا جائے؟

 

چاچی کچھ دیر سوچ کر  پھر بولی۔ یہاں محمود اباد کے قریب میری ایک دوست کا گھر ہے وہاں چلتے ہیں۔ میں چاچی کو بٹھا کر وہاں چل پڑا ۔ مگر گھر پہ تالا لگا تھا۔ چاچی نے وہیں کھڑے کھڑے اپنی دوست کو کال کی۔ اس نے بتایا کہ وہ رات تک ائے گی۔ چاچی نے اسے اپنی حالت اور مجبوری بتائی۔ اس نے کہا کہ اگر ایسی مجبوری ہے تو چابی برابر والے گھر میں ہے وہاں سے لے لو۔ چاچی نے ایسا ہی کیا تھوڑی دیر بعد ہم دونوں گھر کے اندر تھے۔

وہ گھر کافی بڑا اور شاندار تھا۔ چاچی نے کہا میرے لیے تو کپڑے مل جائیں گے تمہارے لیے کیا کروں۔ میں نے کہا دیکھ لیں جو بھی ہو سکتا ہے۔ چاچی اندر گئی اور الماری سے دو جوڑے نکال لائیں۔  میرے لیے ایک جینز اور ایک شرٹ تھی ۔ چاچی نے کہا کہ یہ ان کی دوست کے ہسبینڈ کے کپڑے ہیں ۔کپڑے مجھے تھوڑے ڈھیلے لگ رہے تھے لیکن گزارا ہو سکتا تھا۔

چاچی نے مجھے کہا کہ پہلے میں نہا کے آ جاتی ہوں پھر تم چلے جانا۔

اور شاید یہی وہ لمحہ تھا جس کا مجھے کافی عرصے سے انتظار تھا۔ چاچی نے کہا کہ دروازہ اندر سے پوری طرح لاک کر دوں تاکہ کوئی آ نہ جائے۔ پھر چاچی بیڈ روم کے ساتھ اٹیچ باتھ روم میں چلی گئی۔ میں باہر ہی رہا جیسے ہی میں نے دروازہ بند ہونے کی اواز سنی میں بھی بیڈروم میں چلا گیا۔

 

لیکن یہاں تو دروازہ بالکل بند تھا اندر جھانکنے کی کوئی جگہ نہیں تھی ۔ پھر میں کچھ سوچ کر باہر ایا اور گھر کا پورا جائزہ لینے لگا ۔ مجھے اندازہ ہوا کہ کمرے کے پیچھے ایک چھوٹی سی گیلری ہے۔ میں وہاں گیا اور میرا جیک پاٹ لگ گیا۔ وہاں ایک ایگزاسٹ فین لگا تھا پاس ہوئی ایک چھوٹا سا سٹول پڑا تھا۔ میں اسٹول پہ چڑھ کر اندر جھانکنے کی کوشش کرنے لگا۔ اور جب دیکھا تو لگا کہ شاید جنت کا نظارہ مجھے مل گیا۔

 

 اندر چاچی اپنے مکمل کپڑے اتار چکی تھی۔ میں نے آج تک کپڑوں میں جس بھاری جسم کو دیکھا تھا۔ اج وہ مادر پدر برہنہ میرے سامنے تھا۔ میں بیان نہیں کر سکتا اس وقت میری کیفیت کیا تھی۔ چاچی کے پستان بہت بڑے اور گول تھے۔ ان کے نپل موٹے اور اس پاس کا ایریا بہت ڈارک تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے ایک شعر یاد اگیا۔

 

"قدرت تو زرا دیکھیے پستان یار میں

پیوند فالسے کا لگا ہے انار میں"

 

پھر چاچی گھوم گئی۔ یہ نظارہ تو اور بھی خوبصورت تھا۔ چاچی کے بڑے بڑے، کم از کم 40 سائز کے چوتڑ میری انکھوں کے سامنے تھے۔ میں چونکہ خاصہ اوپر تھا اس کی چاچی میری طرف نہیں دیکھ سکتی تھی۔ لیکن میں چاچی کا گورا بدن مکمل طور پر دیکھ رہا تھا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اگلے دس منٹ میرے لیے نظارہ فردوس سے کم نہیں تھے۔ چاچی اپنا گورا برہنہ بدن مل مل کے نہیں نہا رہی تھی۔ اور میرا ہاتھ مسلسل شلوار کے اندر تھا۔

پھر جیسے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ اب وہ باہر آنے والی ہیں۔ میں فوراً وہاں سے ہٹا اور کمرے کے باہر جاکر بیٹھ گیا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ چاچی نے باہر آکر مجھے کہا کہ جاو نہا لو۔ لیکن میں ٹکٹکی باندھے چاچی کے گیلے کپڑوں سے باہر جھانکتے جسم کو دیکھ رہا تھا۔

میں اتنا گھور رہا تھا کہ آخر وہ جھینپ گئی۔ پھر چلا کر بولی۔۔۔ سنائی نہیں دے رہا؟

 

میں چونکنے کی ایکٹنگ کرتا ہوا بولا۔ جی چاچی۔۔

جاو نہا لو۔۔۔ اور جلدی کرو ہم پہلے ہی لیٹ ہوگئے ہیں۔

 

میں اندر گیا اور کپڑے اتار کر نہانا شروع کیا۔۔ میرے دماغ میں ابھی تک چاچی کا ننگا سراپا گھوم رہا تھا۔۔ یہاں تک کہ میرا لنڈ مکمل سخت ہوچکا تھا۔پھر مجھے شرارت سوجھی۔ میں نے چاچی کو آواز لگائی.  کہ میرے کپڑوں میں فیس واش رکھا ہوگا وہ دے دیں۔ چاچی نے کہا آتی ہوں۔۔ چاچی پاس آئیں اور دروازہ ناک کیا۔ اور میں اسی لمحے کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے آو دیکھا نہ تاو۔ پورا دروازہ پٹ کھول دیا۔ اب میں ننگ دھڑنگ چاچی کے سامنے تھا۔ اس حالت میں کہ میرا "سانپ" پھنکاریں مار رہا تھا۔ چاچی نے مجے دیکھا اور دو تین سیکنڈ کے لیے جیسے سکتے میں آگئیں۔ پھر شاید انہیں یاد آیا کہ اس وقت انہیں چیخنا چاہیے۔ وہ زوردار چیخ مار کر وہاں سے بھاگ گئی۔ بھاگتے وقت وہ فیس واش باتھ روم میں پھینک گئی تھی۔ مجھے چاچی کی حالت پہ بہت ہنسی آئی۔ میں نے فیس واش اٹھایا۔ اور نہانے لگا۔

دس منٹ بعد میں باہر آیا۔ چاچی کمرے سے بہت دور بالکل مین گیٹ کے پاس کھڑی تھیں۔ میں انکے پاس گیا اور بولا۔۔ چاچی۔ آئی ایم سوری۔۔

 

چاچی میری طرف دیکھے بغیر بولیں۔ بات مت کرو مجھ سے۔۔

 

اب اصولاً مجھے وہاں چپ یا شرمندہ ہوجانا چاہیے تھا۔ مگر میں نے ڈھٹائی دکھانے کا فیصلہ کیا۔۔

 

اوکے نہیں کرتا۔۔ یہ کہہ کر میں پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ چاچی نے پلٹ کے مجھے دیکھا۔ اور بولی۔۔ بیٹھ کیوں گئے۔۔ چلنا نہیں ہے؟

 

میں نے کہا۔۔ آپ کو مجھ سے بات تک نہیں کرنی۔ تو اتنا لمبا سفر کیسے کٹے گا؟ رہنے دیں۔۔

 

بکو مت۔۔ چاچی بولیں۔ میری بھابی بیمار ہے۔ ورنہ تمہیں تو ایسا مزا چکھاتی کہ یاد رکھتے۔۔

 

میں نے زیر لب کہا۔۔ ارے اسی مزے کا تو انتظار ہے۔۔ چاچی بولی۔۔ کیا کہا ؟

میں نے کہا کچھ نہیں۔۔ مگر آپ فیصلہ کرلیں۔ مجھ سے بات بند کرنی ہے یا میرے ساتھ چلنا ہے۔۔

 

چاچی بولی۔ کتنے ڈھیٹ ہو تم۔ اس حرکت پر بھی شرمندہ نہیں ہو۔۔

 

میں نے کہا۔ شرمندہ تھا۔ تبھی تو سوری بولا۔۔ میں بے دھیانی میں تھا۔ یاد نہیں رہا کہ آپکے سامنے اس حالت میں نہیں آنا چاہیے۔۔۔ اور یہ سب آپکی غلطی ہے۔۔ آپ نے اتنی جلدی مچا رکھی ہے کہ میں سب بھول گیا۔۔

چاچی دو تین سیکنڈ چپ رہیں۔پھر بولیں۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔۔ معاف کیا۔ اب چلو۔۔ میں نے کہا۔۔ ویری گڈ۔۔ اب چلتے ہیں۔

 

اگلے کچھ منٹوں میں ہم پھر کورنگی روڈ پر تھے۔

 

راستے میں میں نے کہا ۔۔ چاچی ایک بات پوچھوں۔۔ آپ نے مجھے پہلے کبھی اس حالت میں دیکھا ہے؟

 

چاچی بولی۔۔ بکواس مت کرو۔۔ میں کیوں دیکھو گی تمہیں ایسے؟

 

یہاں میں نے نوٹ کیا کہ چاچی اب مصنوعی غصہ دکھا رہی تھیں۔

 

میں نے کہا کیوں؟ بچپن میں نے نہیں دیکھا؟

 

وہ بولی۔ ہاں بچپن میں تو دیکھا ہے۔۔

 

میں نے کہا۔۔ تو پھر چونک کیوں گئی تھی؟

 

بولی۔۔ تم پاگل ہو کیا۔۔ بچپن میں اور اب میں بہت فرق ہے۔۔

 

میں نے اچھا۔۔ کیا فرق ہے؟

 

بولی۔ ننھے مت بنو۔۔

 

میں نے کہا۔۔ ارے ہاں۔۔ فرق تو بہت ہے۔۔ پہلے ڈیڑھ انچ کی تھی۔ اب سات انچ کا ہوگیا ہے۔

 

آب چاچی کا پارہ چڑھ گیا۔۔

 

بے شرم۔۔ زلیل۔۔ کتے انسان۔۔

 

چاچی کی یہ گالیاں سن کر مجھے بہت ہنسی آئی۔ میں اتنا ہنسا کہ خود چاچی کو بھی ہنسی آگئی۔ وہ ہنستے ہنستے بولی۔۔ تم کتنے گھٹیا انسان ہو۔۔ مجھے اتنا غصہ آرہا تھا۔ اب ہنسنے پر مجبور کر دیا۔۔

 

ایسے ہی باتیں کرتے کرتے ہم ہسپتال پہنچ گئے۔

 

 

                                                                           

بھئی چڈی تو چڈی ہوتی ہے۔ گھر کی ہو یا باہر کی۔ مگر یہ بات تو ماننی پڑے گی۔ کہ گھر کہ چڈی میں جو نشہ ہے وہ باہر کی چڈیوں میں نہیں۔۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ نشہ ہی تو ہوتا ہے۔۔۔ اور یہ بات مجھے پہلے نہیں پتہ تھی۔ یہ بہت لمبے وقت میں مختلف تجربات اور تجزیات کے بعد سمجھ آئی۔ اور یہ کہانی انہی تجربات اور تجزیات کی ہے۔

 

تو آگے بڑھنے سے پہلے میری فیملی کا مختصر تعارف۔ میرا نام پرویز ہے۔ بچپن میں سب مجھے پپو کہتے تھے۔ ہم کراچی کے علاقے ناظم آباد میں رہتے تھے۔ ابو کی پرچون کی دوکان تھی۔ امی ریٹائرڈ ٹیچر تھی۔ ویسے انکی عمر ریٹائرمنٹ کی تھی نہیں۔ وہ گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر ہوتی تھیں۔ شادی کے بعد بھی ملازمت کرتی رہیں۔ مگر میری بڑی بہن کی پیدائش کے بعد انہیں پری میچور ریٹائرمنٹ لینی پڑی۔۔ ارے ہاں۔ اپنی کیوٹ بہن (اور اس کہانی کا سب سے اہم کردار) کے بارے میں بتانا تو میں بھول ہی گیا۔

میری بہن مجھ سے پانچ سال بڑی ہے۔ اسکا نام رضیہ ہے۔ اور سب اسے رجو کہتے ہیں ۔۔ ہم بس دو بہن بھائی ہیں۔ امی اکلوتی ہیں۔ اور ابو کے ایک چھوٹے بھائی یعنی میرے چچا گلشن میں رہتے ہیں۔ انکا کپڑے کا بہت بڑا کاروبار ہے (وہ اور انکی فیملی بھی کہانی کا اہم حصہ ہیں مگر ابھی نہیں)

 

تو کہانی شروع ہوتی ہے۔ 90 کی دہائی میں۔ جب میں چھ سال کا ہوا اور مجھے بالآخر اسکول ایڈمیشن کے لیے لیجایا گیا۔ دراصل ہوا یہ کہ میری بہن گورنمنٹ اسکول میں پڑھتی تھی۔ اور پرائمری پاس کرچکی تھی۔ جب میری باری آئی تو امی نے ضد پکڑ لی کہ مجھے سرکاری اسکول نہیں بھیجیں گی۔ وہاں کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ ابو کو بھی اعتراض نہیں تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ کسی پرائویٹ اسکول مہنگے ہوتے ہیں۔ ابو میرے اچھے مستقبل کے لیے یہ قربانی دینے کو تیار تھے۔ مگر اس میں بھی دو مسائل تھے۔

 

ایک یہ کہ میں چھوٹا تھا۔ اکیلا اسکول نہیں جاسکتا تھا۔ اور دوسرا یہ کہ دونوں بہن بھائیوں کو الگ۔الگ اسکول بھیجنے سے زمہ داریاں بھی ڈبل ہوجاتیں۔

امی بضد تھیں کہ رجو (میری بہن) کو بھی بھی پرائویٹ اسکول بھیج دیا جائے۔ ابو بھی چاہتے تھے۔ مگر دو بچوں کو ایک ساتھ پرائویٹ اسکول کا خرچہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ ابو بہت پریشان تھے۔

 

ایسے میں فرشتہ بن کے آئے میرے چچا۔ انہوں نے ابو کو کہا پپو کا (میرا) خرچ برداشت کرلیں۔ رجو کا وہ خود اٹھا لینگے۔ کیونکہ انکا اکلوتا بیٹا بھی اسی اسکول میں داخل ہونے والا تھا۔ (جو نارتھ ناظم آباد میں واقع تھا) مگر انکی شرط تھی کہ یہ بات کسی بھی طرح انکی بیگم یعنی میری چچی کو پتہ نہ چلے۔ وہ بہت چڑچڑے مزاج کی مغرور خاتون تھیں۔ ہر وقت میرے ابو کو غربت کے طعنے دیتی تھیں۔

 

ویسے یہاں ایک چیز کلیئر کردوں کہ یہ سب باتیں مجھے بہت بعد میں پتہ چلیں کیونکہ تب تو میں بہت چھوٹا تھا۔

قصہ مختصر یہ کہ ہم دونوں بہن بھائی ایک نئے اچھے اسکول میں داخل ہوگئے۔ میں تو پڑھائی میں اچھا تھا۔ مگر رجو بہت کمزور تھی۔ ایک تو اسکا دھیان پڑھائی سے زیادہ کھیل میں رہتا تھا۔ اوپر سے وہ سرکاری اسکول میں پانچ سال پڑھی تھی۔ اس لیے اچھے اسکول کے معیار سے بہت پیچھے تھی۔ اکثر اسکی شکایتیں گھر آتی تھی۔ مگر پھر وہ دن آیا۔ جس نے ہم سب کی۔ خصوصاً میری زندگی بالکل بدل کے رکھ دی۔

 

ہمیں اسکول میں چھ ماہ ہوچکے تھے۔ اور اب تک رجو ہر ٹیسٹ میں فیل ہوتی رہی تھی۔ پھر مڈ ٹرم ایگزام آگئے۔ رجو کے چہرے سے ظاہر تھا کہ اسے فیل ہونے کا ڈر لگا ہوا ہے۔۔

 

اور جب ایگزام شروع ہوئے تو وہی ہوا۔ جسکا ڈر تھا۔

 

ایک دن پیپر کے دوران رجو چیٹنگ کرتے ہوئے پکڑی گئی۔ اس کے ٹیچر شہاب سر تھے جو بہت سخت انسان تھے۔ رجو کی جان نکلی پڑی تھی کہ شہاب سر پتہ نہیں اس کا کیا حشر کریں گے ۔ مگر حیرت انگیز طور پر شہاب سر نے اس وقت اسے کچھ نہیں کہا۔

اور جب ساری کلاس پیپر دے کے گھر چلی گئی تو سر نے رجو کو روک لیا۔ جب چھٹی کا وقت ہو گیا تو میں رجو کی کلاس میں ایا۔ وہاں سب لڑکیاں جا چکی تھیں صرف رجو اور شہاب پر بیٹھے تھے۔ شہاب سر نے مجھے کہا کہ بیٹا اپ باہر لان میں جا کے بیٹھو۔

میں باہر لان میں اگیا اور کھیلنے لگا ۔ اسکول بہت بڑا تھا پورا سکول خالی ہوتے ہوتے گھنٹوں لگ جاتے تھے۔ اور ویسے بھی چھٹی کے وقت تقریبا سارا سٹاف گیٹ کی طرف ہوتا تھا اندر کلاسز میں کوئی نہیں ہوتا تھا

میں تھوڑی دیر تک لان میں کھیلتا رہا لیکن بہت جلدی بور ہو گیا۔ کیونکہ اس پاس کوئی بچہ نہیں تھا۔ میں واپس کلاس روم کی طرف گیا۔ دروازہ اندر سے لاک تھا۔ میں ساتھ والی کھڑکی کے پاس گیا۔ وہ بھی بند تھی۔ مگر شیشے سے اندر کا منظر صاف دکھ رہا تھا۔ شہاب سر اپنی چیئر پر بیٹھے تھے۔ اور رجو انکے سامنے کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اندر سے ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھی۔ جنہیں سننے کے لیے مجھے کان لگانا پڑا۔ شہاب سر کہہ رہے تھے۔

تمہیں پتہ ہے نا ہمارے اسکول میں چیٹنگ کرنا کتنا بڑا جرم ہے۔ اگر میں نے پرنسپل کو بتا دیا تو وہ تمہیں ایکسپیل کر سکتے ہیں۔ اور تمہارے امی ابو کی جو بے عزتی ہوگی وہ الگ۔

رجو پہلے ہی ڈر کے مارے کانپ رہی تھی۔ اب باقاعدہ رونے گڑگڑانے لگی۔ بولی۔ سر پلیز انکو مت بتائے گا میں آپکے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔

 

میں کیا کر سکتا ہوں۔ جو کیاہے بھگتنا پڑے گا۔

 

رجو کی مزید ہچکیاں بندھ گئی۔ سر۔۔ پلیز مجھے معاف کردیں۔ آپ جو بولینگے میں کرونگی۔ بس کسی کو بتائیے گا مت۔ پلیز سر۔

 

شاید یہی وہ جملہ تھا جسا شہاب سر انتظار کر رہے تھے۔

 

پکی بات ہے۔ جو بولونگا کروگی؟

رجو فوراً آنسو صاف کرنے لگی اور بولی۔۔ جی سر۔۔ میرے بھائی کی قسم۔

 

ٹھیک ہے۔ پھر میرا ایک کام کرو۔ یہ کہہ کر شہاب سر نے اپنی پینٹ کی زپ کھولی۔ اور اندر سے اپنی للی باہر نکالی۔ (جو کہ اصل میں لنڈ تھا۔ مگر تب مجھے اسکا نام تک نہیں پتہ تھا) میرے پاس بھی للی تھی۔ لیکن انکی تو بہت بڑی تھی۔ اور کڑک بھی۔

مگر میں تو صرف حیران تھا۔ رجو کی تو جیسے چیخ نکل گئی۔

یہ آپ کیا کر رہے ہیں سر؟

 

رضیہ بیٹی۔۔۔ شہاب سر مکار لہجے میں بولی۔۔ ابھی تم نے ہی کہا تھا۔ جو بولونگا.  کروگی۔۔

 

لیکن سر۔۔۔

 

لیکن ویکن کروگی۔ تو یہاں سے سیدھا پرنسپل آفس جاونگا۔۔ منظور ہے؟

 

رجو کی پھر سے جان نکل گئی۔ وہ بولی۔۔ نہیں نہیں سر۔۔ پلیز۔۔

 

تو تم اسے ٹھنڈا کرو۔ میں آج کا دن ہمیشہ کے لیے بھول جاونگا۔

 

باوجود اسکے کہ میں بہت چھوٹا تھا۔ اور یہ سب سمجھ نہیں پارہا تھا۔ مگر اتنا اندازہ تھا کہ یہ سب غلط ہورہا ہے۔ رضیہ بہت معصوم تھی۔ یقیناً شہاب سے اسکے ساتھ ظلم کر رہے تھے۔

رجو نے پوچھا۔۔ ٹھیک ہے سر۔۔ کیا کروں؟

 

شہاب سر نے رضیہ کا ہاتھ پکڑ کے اپنی للی پر رکھ دیا۔ رجو نے فوراً ہاتھ ہٹا لیا۔ مگر شہاب سر کی خونخوار نظریں دیکھ کر پھر پکڑ لیا۔

سر نے اسے للی ہلانے کو کہا۔ وہ ہلانے لگی اور سر آنکھیں بند کرکے کرسی سے ٹیک لگا کربیٹھ گئے۔ کافی دیر وہ ہلاتی رہی۔ اور سر عجیب عجیب سی آوازیں نکالتے رہے۔

پھر بولے۔۔ رکو۔۔ رجو فوراً رک گئی۔

 

اب اسے منہ میں لو۔۔ رجو کا چہرہ فق ہوگیا۔

 

(

یہ بات سن کر رضیہ ہل گئی ۔ مگر اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا ۔ وہ جھکی اور سر کی للی منہ میں لے لی۔ مگر ایک ہی جھٹکے اٹھی اور تھوکنے لگے۔ شہاب سر نے دوبارہ اسے اپنے پاس بلایا اور زبردستی اپنی للی اس کے منہ میں دے دی۔

وہ مجبورا للی پہ زبان پھیرتی رہی۔۔ سر کو شاید بہت مزہ ا رہا تھا ان کے منہ سے عجیب عجیب اوازیں نکل رہی تھیں۔ پھر انہوں نے دونوں ہاتھ سے رضیہ کا سر پکڑ لیا اور زور زور سے اپنے للی پر رگڑنے لگے۔ 

شاید رضیہ کا دم گھٹ رہا تھا وہ دونوں ہاتھوں سے سر سے خود کو چھڑانے لگی ۔ مگر شہاب سر نے بڑی مضبوطی سے اس کا سر پکڑا ہوا تھا اور زور زور سے اپنی للی اس کے منہ سے اندر باہر کر رہے تھے ۔۔ پھر سر نے زوردار چیخ ماری اور ایک زوردار جھٹکا کھایا۔ اور رضیہ کو چھوڑ دیا ۔ رضیہ دور ہٹی اور الٹی کرنے لگی۔ اس کے منہ سے ڈھیر سارا سفید مادہ نکل رہا تھا۔

 

یہاں مجھے کچھ سمجھ نہیں ارہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ میں بس حیران پریشان دیکھ رہا تھا۔ رضیہ وہاں سے بھاگی اور سیدھی واش روم کی طرف چلی گئی۔

 

تب تک شہاب سر ٹشو پیپر سے اپنی للی صاف کر رہے تھے۔ 

 

میں وہاں سے ہٹ گیا اور تھوڑی دیر بعد رضیہ روتی ہوئی باہر ائی۔ وہ جیسے ہی باہر ائی میں نے اسے گھیر لیا۔ میں نے اس سے سب سے پہلا سوال کیا ۔۔ آپی اپ اندر کیا کر رہی تھی؟

حیرت سے مجھے دیکھا اور کہا کیا تم ہمیں دیکھ رہے تھے؟

میں نے کہا ہاں ۔ ۔ وہ مزید ڈر گئی ۔۔

 

اس نے جلدی سے میرے منہ پہ ہاتھ رکھا ۔۔ اور کہا ۔۔ ابھی جو کچھ بھی تم نے دیکھا وہ کسی کو نہیں بتاؤ گے تمہیں امی کی قسم ۔۔

 

میرے لیے امی کی قسم بہت معنی رکھتی تھی میں نے وعدہ کیا کہ کسی کو نہیں بتاؤں گا ۔

 

وہ دن یوں ہی گزر گیا اس کے بعد کافی عرصے تک کوئی خاص واقعہ نہ ہوا۔ ہمارے فائنل ایگزام ہو گئے ۔ رجو کے نمبر بہت کم ائے تھے لیکن بالاخر وہ پاس ہو گئی تھی ۔ میں بھی اگلی کلاس میں پہنچ گیا تھا۔

 

یہاں اپ کو ایک بات بتا دوں کہ میں اور رجو ایک ہی کمرے میں سویا کرتے تھے۔ ہمارے گھر میں کل دو کمرے تھے ایک میں امی ابو اور میں سوتے تھے دوسرے میں رجو اکیلی ۔۔ پھر جب میں تھوڑا بڑا ہوا تو امی نے مجھے بھی رجو کے کمرے میں سونے کے لیے بھیج دیا۔

 

ہمارے کمرے کے ساتھ ایک اٹیچ باتھ روم تھا۔ ایک دن میں صبح صبح نہانے گیا تو دیکھا کہ باتھ روم کی کھونٹی پر ایک چڈی ٹنگی ہوئی ہے۔ یہ یقینا میری چڈی نہیں تھی کیونکہ کافی بڑی تھی۔ اخر یہ کس کی چڈی تھی میں ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگا ۔ اس میں سے عجیب سی بدبو ا رہی تھی ۔ ابھی میں اس چڈی کو ٹٹول ہی رہا تھا ۔ کہ رجو چلاتی ہوئی ائی ۔۔ پپو یہ کیا کر رہے ہو ۔۔

 

یہ کہہ کر اس نے میرے ہاتھ سے چڈی چھین لی اور وہاں سے چلی گئی ۔۔ میں اس کے پیچھے پیچھے ایا اور اس سے پوچھا یہ کس کی چڈی ہے ؟

 

وہ بولی کسی کی بھی ہو تمہیں کیا لینا دینا ؟ میں نے کہا بتاؤ نا ۔۔

میرے ضد کہہ رہے ہیں پر وہ کہنے لگی یہ میری چڈی ہے ۔۔۔ اس کی یہ بات سن کر میں زور زور سے ہنسنے لگا ہا ہا ہا تم بھی چڈی پہنتی ہو ؟

وہ بولی ہاں تو ؟ میں نے کہا پہلے تو نہیں پہنی تھی اب کیا ہوا ؟

تو وہ بولی تم ابھی چھوٹے ہو نہیں سمجھو گے ۔۔ بس ائندہ میری کسی بھی چیز کو ہاتھ مت لگانا۔۔

 

پھر کافی دن اور گزر گئے ۔ ایک دن میں اسکول کے گراؤنڈ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔ کہ ایک بچے نے مجھے ا کر دھکا دیا اور میں گر گیا ۔۔ میں غصے سے اٹھا اور ایک زوردار تھپڑ اس بچے کے منہ پر دیا ۔۔ وہ لڑکا عمر میں مجھ سے چھوٹا تھا اور صحت میں بھی کم ۔۔ وہ ساتھ والی دیوار کے پاس گرا اور اس کا سر دیوار سے ٹکرایا اور خون بہنے لگا ۔۔ یہ دیکھ کر پورا سکول جمع ہو گیا ۔۔ میری ٹیچر مجھے پکڑ کے پرنسپل کے پاس لے کے گئی ۔ پرنسپل نے مجھے تھوڑا سا ڈانٹا اور کہا کہ کل اپنی والدہ کو لے کر انا۔

 

میں نے جا کر سارا ماجرہ رجو کو بتایا رجو بہی ڈر گئی ۔۔ بہرحال اب امی کو تو بلانا ہی تھا ۔۔ ہم نے چپکے چپکے امی کو بتایا تاکہ ابو کو پتہ نہ چلے ۔۔ امی بھی ٹینشن میں اگئی مگر انہوں نے کہا کہ صبح میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔

اگلے دن امی ابو کو بتائے بغیر ہمارے ساتھ اسکول گئی۔ میں اپنی کلاس میں چلا گیا اور امی پرنسپل کے افس میں۔۔ میں بہت ڈرا ہوا تھا کہ اج تو میری شکایت ہو جائے گی اور امی مجھے بہت ڈانٹیں گی ۔ مگر جب اسکول ختم ہوا تو اور امی سے میری ملاقات ہوئی ۔ تو امی بہت خوش اور مطمئن نظر ا رہی تھی  ۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو امی بولی ارے کچھ نہیں ۔ اپ کے پرنسپل صاحب تو ہمارے جاننے والے نکلے ۔۔ میں جس سکول میں ٹیچنگ کرتی تھی وہاں یہ میرے سینیئر ہوتے تھے ۔۔ اب دیکھو یہاں پرنسپل بن چکے ہیں ۔ میں نے بھی سکون کا سانس لیا کہ چلو پرنسپل صاحب امی کے جاننے والے نکل ائے تو میری جان بچ گئی۔

اس وقت ہم خوشی خوشی گھر اگئے لیکن اس دن کے بعد میں نے امی کی روٹین میں ایک عجیب سی چینجنگ دیکھی ۔

 

 

امی اب ہر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی بہانے سے ہمارے اسکول چکر لگاتیں۔  کبھی کہتی تمہاری ٹیچر سے بات کرنی ہے۔  کبھی کہتی وہیں قریب کام سے جانا ہے۔  پھر وہ پرنسپل آفس جاکر گھنٹوں تک بیٹھی رہتیں۔ 

 

میں نے کئی بار امی کو پرنسپل سے کھلکھلا کر باتیں کرتے سنا۔  یہاں میں آپکو انکا حلیہ بھی بتا دوں۔  انکا نام حماد تھا۔  انکی عمر پچاس کے آس پاس ہوگی۔  وہ لمبے چوڑے کسرتی جسامت کے انسان تھے۔ ویسے وہ بڑے سخت گیر قسم کے تھے۔  مگر جب امی سے بات کرتے تو بڑی نرمی اور ہنسی مسکراہٹ کے ساتھ ۔

ایک دن کی رضیہ کی طبیعت خراب تھی۔ مجھے اکیلے اسکول جانا تھا امی نے کہا کہ میں تمہیں چھوڑ اتی ہوں اور واپسی پر ساتھ لے اؤں گی ۔

 

 ہمارا اسکول صبح نو بجے لگتا تھا اور دو بجے چھٹی ہوتی تھی ۔ اس پانچ گھنٹے کے دوران امی مسلسل حماد سر کے روم میں بیٹھی رہی۔ پھر جب چھٹی ہو گئی تو میں امی کے پاس ایا اور امی نے مجھے باہر رکنے کو کہا۔ تھوڑی دیر میں پورا سکول خالی ہو گیا مگر ہم لوگ اسکول میں ہی تھے۔ میں بہت بور ہو رہا تھا کیونکہ امی جانے کا نام نہیں لے رہی تھی اور حماد سر ان سے مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہے تھے ۔

 

بالاخر میں ان کے کمرے کے پاس گیا اور دروازے سے چھپ کر ان کی باتیں سننے لگا ۔ حماد سر کہہ رہے تھے ۔۔

شبانہ ۔۔ وہ بھی کیا دن تھے ۔۔ دل کرتا ہے کاش وہ دن دوبارہ واپس ا جائیں۔

امی بولی دل تو میرا بھی یہی چاہتا ہے ۔۔ مگر وقت بدل گیا ہے ۔ میں شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہوں ۔۔ سر بولے ۔ میری شادی کو بھی 20 سال ہو چکے ہیں اور میرا بڑا بیٹا جوان ہونے والا ہے ۔ لیکن دل یہ باتیں کہاں دیکھتا ہے ۔ ۔

 

امی بولی جانتی ہوں اس لیے تو روز بہانے سے یہاں ا جاتی ہو ۔۔ پھر حماد سر شرارت سے بولے۔  کیوں نہ اج پھر ہو جائے ۔۔ امی بولی پاگل ہو گئے ہیں کیا یہاں  سکول میں ؟

سر نے کہا ڈرو مت یہاں کوئی نہیں ائے گا ۔۔ امی بولی اور میرا بیٹا ؟

 

ارے وہ چھوٹا ہے اسے کسی کام میں لگا دیں گے۔ یہ سن کر امی سوچ میں پڑ گئی ۔۔ پھر وہ باہر ائیں ۔ مجھے دیکھ کر بولیں ارے تم یہیں کھڑے ہو ۔۔؟ میں نے کہا ہاں ۔۔ امی نے پرس سے پیسے نکال کر دیے۔  اور کہا جاؤ کینٹین سے سینڈوچ لے اؤ ۔۔ میں خوشی خوشی پیسے لے کر سینڈوچ لینے چلا گیا ۔ سینڈوچ تو پانچ منٹ میں ہی ختم ہو گیا اب میں دوبارہ بور ہونے لگا ۔۔

میں دوبارہ حماد سر کے روم کے پاس ایا ۔۔ مگر وہاں کوئی نہیں تھا ۔ میں امی کو ڈھونڈنے ادھر ادھر جانے لگا ۔۔ جب اسٹاف روم کے پاس سے گزرا تو مجھے وہاں سے عجیب و غریب اوازیں ا رہی تھی۔)

 

میں نے غور سے سنا تو لگا امی اندر ہی ہیں۔ میں نے دروازے سے اندر جھانکا تو امی ٹیبل پر بیٹھی تھیں اور حماد سر انکے ہونٹ چوس رہے تھے۔ مجھے بڑا عجیب لگا کہ یہ سب کیا کر رہے ہیں۔ امی تو کسی غیر مرد کے سامنے آنے گھبراتی تھی۔ آج پرنسپل صاحب کے منہ میں منہ ڈالا ہوا ہے۔

وہ دونوں ایک دوسرے میں اتنے مگن تھے کہ میری آمد کا اندازہ نہیں ہوا۔ میں بھی دروازے کی اوٹ سے چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔ کہ انکو نظر بھی نہ آسکوں۔

 

پھر سر نے امی کی قمیض میں ہاتھ ڈال دیا۔ اور انکا سینہ دبانے لگے۔ امی آہیں بھر رہی تھیں۔ پتہ نہیں انہیں درد ہورہا تھا یا مزا آرہا تھا۔۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سر نے امی کی قمیض اتار دی۔ اندر امی نے ایک چھوٹی سی بنیان پہن رکھی تھی (تب مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اسے برا کہتے ہیں)  اس بنیان کے اندر امی کے گول مٹول ابھار صاف نظر آرہے تھے۔ امی نے بھی سر کی شرٹ اتار دی تھی۔ سر کا جسم بہت تگڑا تھا۔ اب سر امی کے سینے پر لگے ہوئے تھے۔ وہ بھوکے بچوں کی طرح امی کا سینہ چوس رہے تھے۔ بہت زور زور سے نوچتے۔ اور امی کی ہلکی سی چیخ نکل جاتی۔ کافی دیر یہ چلتا رہا پھر سر نے امی کی شلوار کا ناڑا کھول دیا۔ اور شلوار نیچے گرا دی۔ امی نے اس کام میں انکا پرا ساتھ دیا۔

میں نے دیکھا اندر امی نے بڑی سی چڈی پہن رکھی ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیا چکر ہے۔۔ پہلے آپی کی چڈی نظر آئی اور اب امی کی بھی؟ یہ عورتیں چڈی کب سے پہننے لگیں؟

 دوسرے میں یوں حیران تھا کہ امی کیوں ننگی ہورہی ہیں۔ نا تو انہیں یہاں نہانا تھا۔ نہ کپڑے بدلنے تھے۔

جو بھی تھا۔ میں پہلی بار کسی عورت کو اس حالت میں دیکھ رہا تھا۔۔ وہ بھی میری اپنی امی کو۔

پھر سر نے امی کو کوئی اشارہ کیا۔ امی ٹیبل سے اتریں اور پلٹ کر کھڑی ہوگئیں۔ انکی پیٹھ سر کی طرف تھی۔ سر نے انہیں تھوڑا آگے دھکا دیا۔ اور امی نے جھک کر ٹیبل پر ہاتھ ٹکا دیے۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ امی کے کولہے سر کے بالکل سامنے تھے۔

 

پھر سر نے امی کی چڈی اتار کر نیچے ڈال دی۔ اب امی ی دو بڑے بڑے کولہے بالکل ننگے تھے۔

 

 یوں تو اب تک میں جو دیکھا وہ ویسے ہی حیران کن تھا۔ مگر

پھر جو کچھ میں نے دیکھا۔ اسکی توقع میں خواب میں بھی نہیں کر رہا تھا۔

سر۔ نے اپنی پینٹ اتار دی۔ اندر انہوں نے بھی چڈی پہنی تھی (بلکہ اسے چڈا کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا)

سر نے اسے بھی فوراً نیچے اتار دیا۔ اندر سے حماد سر کی بہت بڑی للی باہر آئی۔ جو بالکل کڑک تھی۔ میں حیران رہ گیا۔ یہ تو شہاب سر کی للی سے بھی بڑی تھی۔

 

اب کنڈیشن یہ تھی کہ امی اور سر دونوں کی شلوار پتلون اور چڈیاں۔ انکے پیروں میں الجھی پڑی تھیں۔

پھر سر نے اپنی للی کو ہاتھ سے پکڑا اور امی کے نزدیک آئے۔ انہوں نے امی کے دونوں کولہوں کے بیچ میں للی رکھی اور اندر دبانے لگے۔ امی نے منہ سے ایک آہ نکلی۔

میں مزید حیران ہوا کہ امی کے کولہوں کے بیچ میں اتنی جگہ کہاں سے آگئی کہ اتنی بڑی للی پوری اندر چلی گئی؟

 

 

 

یہاں میری حیرانی و پریشانی مسلسل جاری تھی ۔ وہاں سر کا اپنی للی امی کے کولہوں کے اندر باہر کرنا مسلسل جاری تھا۔ سر بہت زور زور سے ہل رہے تھے ساتھ امی کو ابھی دھکے لگ رہے تھے۔ دونوں کے منہ سے نہ سجھ آنے والی آوازیں نکل رہی تھی۔  یہ تکلیف تھی۔  مزا تھا۔  غصہ تھا۔  مجھے نہیں پتہ تھا۔

 

پتہ نہیں کتنی دیر یہ سب چلتا رہا۔  پھر سر کی حرکت میں بہت تیزی آگئی۔  وہ بہت زور زور سے امی کو مارنے لگے۔  پھر اچانک بالکل رک گئے۔  اور امی سمیت ٹیبل پر گر گئے۔

دونوں لمبی لمبی سانسیں لے رہے تھے پھر وہ دونوں اٹھے۔  اور جلدی جلدی کپڑے بدلنے لگے۔

میں سمجھ گیا کہ اب یہ لوگ باہر آئیں گے۔  میں فوراً وہاں سے ہٹا اور واپس لان کی طرف اگیا۔

 

تھوڑی دیر بعد امی باہر ائی اور مجھے لے کر گیٹ کی طرف انے لگی۔ ہم باہر ا کر رکشے کا انتظار کرنے لگے۔ کیونکہ اسکول وین جا چکی تھی ۔ کچھ دیر بعد ایک بڑی سی گاڑی ہمارے پاس ا کر رکی۔ میں نے دیکھا اس میں حماد سر بیٹھے تھے۔ انہوں نے امی کو کہا کہ چلو تم دونوں کو گھر چھوڑ دو۔ امی ہچکچا رہی تھی۔ انہوں نے ہلکی اواز میں سر سے کہا کہ وہاں کوئی دیکھ لے گا۔ سر نے کہا فکر مت کرو میں گھر سے تھوڑا دور اتار دوں گا۔ پھر ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔ میں پہلی بار اتنی بڑی گاڑی میں بیٹھا تھا۔ گاڑی میں اے سی چل رہا تھا جس کی ٹھنڈک بہت زیادہ تھی ۔ ہمارے گھر میں تو اے سی تھا نہیں۔

سر نے وعدے کے مطابق ہمیں گلی کے کونے پر اتار دیا۔ اور ہم دونوں گھر واپس اگئے۔ میں نے اپنے کسی بھی عمل سے امی کو یہ پتہ نہیں چلنے دیا کہ میں سب کچھ دیکھ چکا ہوں۔

 

اس واقعے کے بعد کوئی اہم واقعہ نہیں ہوا۔

البتہ ایک چینج میرے اندر ایا۔ وہ یہ کہ جنس کی طرف میرا رجحان بڑھ گیا۔ اب میں ہر چیز کو بڑی باریک بینی سے دیکھتا اور پرکھتا تھا۔ میں ہر عورت کو بہت گھور کے گھور کے دیکھتا۔ خصوصا اپی اور امی کو۔

 

وقت گزرتا رہا اور ہم سب کے اندر مختلف تبدیلیاں انے لگی۔ اور سب سے زیادہ تبدیلی میری بہن رضیہ میں۔ اس کا قد تیزی سے بڑھ رہا تھا سینے کے ابھار باہر ا رہے تھے۔اور وزن بھی زیادہ ہو رہا تھا۔

دیکھتے دیکھتے کئی سال گزر گئے۔  اب میں بچپن سے لڑکپن کی طرف ا گیا تھا۔ اب مجھے عورت مرد کے معاملات بہت حد تک سمجھ انے لگے تھے۔ اپی رضیہ کافی بڑی ہو گئی تھی. وہ اسکول ختم کرکے کالج جانے لگی تھی۔  اسکی جسامت امی سے بہت ملتی جلتی ہورہی تھی۔

 

بہر حال۔ انہی دنوں ہمارے گھر میں کچھ مسائل رہنے لگے۔ ابو دوکان کی کمائی سے گھر چلا نہیں پارہے تھے۔ ایک دن چچا نے ابو سے کہا کہ اب انہیں کاروبار بڑھانا چاہیے۔ یہ چھوٹی سی دوکان انہیں زیادہ کچھ نہیں دے سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ابو مکان بیچ دیں اور پیسے کاروبار میں لگائیں۔

 ابو بولے۔ اچھا۔۔ اور رہونگا کہاں؟

چچا بولے۔۔ کیا میرا گھر آپکا نہیں ہے؟

تین منزلہ عمارت ہے۔ اور گھر میں ہم صرف تین لوگ ہیں۔۔ آپ میرے ساتھ شفٹ ہوجائیں۔

 

نہیں۔ چھوٹے۔ میں تم پہ بوجھ نہیں بنونگا۔ اور تم گھر میں اکیلے تھوڑی ہو۔ تم جانتے ہو تمہاری بیوی جمیلہ ہمیں کچھ خاص پسند نہیں کرتی۔

 

اس سب کی فکر آپ مت کریں۔ وہ گھر میرا ہے۔ اپنی محنت کی کمائی سے بنایا ہے۔ جہیز میں نہیں ملا۔ اور جمیلہ ہوتی کون نے ہم بھائیوں کے بیچ بولنے والی۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔ کہ وہ آپ سے اس متعلق کوئی بات نہیں کریگی۔

 

ابو مان نہیں رہے تھے۔ مگر اگلے کچھ دنوں میں چچا نے مسلسل ضد کرکے انہیں منا لیا۔

 

قصہ مختصر یہ کہ ابو نے مکان اور دوکان دونوں بیچ دیے۔ اور نارتھ ناظم آباد میں ایک منی مارٹ کھول لیا۔ اور ہم چچا کے گھر اوپر والے فلور پہ منتقل ہوگئے۔

 

آگے بڑھنے سے پہلے میں چچا کی فیملی کا مختصر تعارف کرا دوں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

چچا کی بیگم جمیلہ چاچی تھی۔ ان کا ایک بیٹا تھا جو مجھ سے دو تین سال بڑا اور رضیہ سے دو تین سال چھوٹا تھا۔ جمیلہ چچی اور ان کا بیٹا دونوں تھوڑے سے مغرور سے تھے۔ حالانکہ ان کا بیٹا خالد میرا دوست تھا لیکن وہ بھی کبھی کبھی اپنے ابا کے پیسوں پر ناز کرتا نظر اتا تھا۔

جبکہ جمیلہ چاچی میں تو یہ عادت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ وہ جب بھی ملنے اتی ہیں میری امی کو بند الفاظ میں غربت کے طعنے دیتی۔

ان کی جسامت بہت بھاری تھی۔ میری امی کافی سلم سمارٹ لیکن صحت مند تھی۔ جبکہ چاچی کا جسم خاصہ بھاری تھا خصوصا ان کی چھاتیاں اور ان کے کولہے۔

جب ہم ان کے گھر میں شفٹ ہوئے تو خالد کا رویہ ہم دونوں کے ساتھ بالکل بدل گیا۔ اب وہ ہم دونوں کے ساتھ بہت گھل مل کے رہتا تھا۔ خصوصا رضیہ آپی کی طرف وہ خوب توجہ دیتا۔ چاچی کی رویے میں بھی بہت تبدیلی ائی تھی۔ لیکن ابھی ان میں خاصہ غرور جھلکتا تھا۔

 

ایک دن گھر کے سب بڑے کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ گھر میں بس ہم تین تھے۔  چھٹی کا دن تھا اس لیے کوئی خاص کام نہیں تھا۔ ہم تینوں نے کھیلنے کا پروگرام بنایا ۔ میں لوڈو کھیلنا چاہتا تھا لیکن خالد بضد تھا کیا چھپن چھپائی کھیلیں گے۔میں نے کہا یار یہ تو بچوں کا کھیل ہے۔ کہنے لگا مزہ ائے گا اگر کھیلیں گے تو ۔۔ میں اس کی بات مان گیا۔

پہلے میں نے خالد کی انکھوں پر پٹی باندھی اور میں اور رضیہ جا کر چھپ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے ہم دونوں کو تلاش کر لیا۔ پھر میری باری ائی۔ خالد نے میری انکھوں پر پٹی باندھ دی۔ اور بہت زیادہ کس کے باندھی تھی ۔ اس نے کئی بل دیے۔ پھر وہ دونوں کہیں جا کر چھپ گئے۔ میں گنتی مکمل کرنے کے بعد پٹی کھولنے لگا جس میں کافی وقت لگ گیا

پھر میں ان دونوں کو ڈھونڈنے نکلا مگر وہ کہیں نہیں ملے۔ عموما ہم سارے کھیل اپنے فلور پر ہی کھیلتے تھے۔ لیکن میں نے اوپر والے فلور کا ایک ایک کونا چھان مارا وہ دونوں وہاں نہیں تھے۔

میں نیچے والے فلور پر ایا وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ اب بس چھت والا فلور باقی تھا۔ وہاں بس دو بڑے کمرے تھے جو خالی تھے ایک بڑا صحن تھا اور ایک پرانا سٹور روم تھا ۔ جہاں گھر کا کاٹھ کباڑ جمع ہوتا تھا۔ میں دونوں کی تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا۔ مجھے سٹور روم میں سے ہلکی اواز ائی اور میں سمجھ گیا کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک وہاں ہے۔ میں چپکے چپکے اس طرف بڑھا تاکہ اسے سرپرائز کر سکوں۔ جب قریب پہنچا تو اندازہ ہوا کہ اندر سے ایک نہیں دو اوازیں ا رہی ہیں۔ یہ اواز یقینا رضیہ اور خالد ہی کی تھی

رضیہ بول رہی تھی کیا کر رہے ہو میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا ہے۔

خالد بولا۔ بس دو منٹ کوئی نہیں دیکھے گا۔

 

اب تو میرا اندر جھانکنا بنتا تھا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ اس لیے کچھ نظر نہیں ا رہا تھا۔ اتنے میں ہوا کا جھونکا ایا اور کھڑکی ہلکی سی کھل گئی ۔ سورج کی روشنی اندر داخل ہوئی تو میں نے دیکھا۔ خالد رضیہ اپی کی قمیض میں ہاتھ ڈالے اندر ان کے سینے دبا رہا تھا۔ اور رضیہ مچل رہی تھی۔

یہ دیکھ کر مجھے بہت غصہ ایا۔ میں نے سوچا ابھی اندر جاؤں اور خالد کو دو ہاتھ لگاؤں۔ پھر نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میں نے باہر کھڑے ہو کر ہی اگے کی کاروائی دیکھنے کا فیصلہ کیا۔

اب رضیہ نے کسمانا بند کر دیا تھا۔ مگر منہ سے منع کر رہی تھی ۔ خالد پلیز مت کرو۔ ۔

مگر خالد رکا نہیں۔ اب اس کے ہاتھ بڑھ کر رضیہ کی شلوار تک جا پہنچے وہ اندر ہاتھ ڈال کر شاید اس کی کولہے دبا رہا تھا۔ رضیہ نے اب منہ سے بھی بولنا بند کر دیا تھا۔ شاید وہ بھی رسماً منع کر رہی ہو اسے بھی مزہ ا رہا تھا۔ پھر خالد کا ہاتھ اس کے سامنے کی طرف ایا ۔ شاید وہ چوت میں انگلی کرنا چاہ رہا تھا۔ مگر اب رضیہ کی برداشت ختم ہو گئی۔ اس نے جھٹکے سے خالد کا ہاتھ باہر نکالا اور پیچھے ہٹ گئی۔

بس اب بہت ہوا اج کے لیے اتنا کافی ہے ۔۔

خالد بولا کم ان یار۔۔ روز روز کہاں ایسا موقع ملتا ہے۔۔ رضیہ بولی جانتی ہوں ۔۔ مگر جب بھی موقع ملتا ہے تو میں کبھی منع نہیں کرتی ۔ اج پپو گھر میں ہے اس لیے منع کر رہی ہوں۔

 

اب میں سب سمجھ چکا تھا یہ سب کچھ رضیہ کی رضا مندی سے ہو رہا تھا۔ یعنی میرا خالد سے ناراض ہونا یا اس پر شک کرنا بیکار تھا۔

میں خاموشی سے وہاں سے ہٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر اگئے اور مجھے دیکھ کر کہنے لگے تم نے تو ہمیں تلاش ہی نہیں کیا۔ میں نے کہا میری طبیعت صحیح نہیں ہے۔ میں ارام کرنے جا رہا ہوں یہ کہہ کر میں اپنے روم میں چلا گیا

 

 

 

 

 

 

 

 

میں کمرے میں جاکر سونے کا ناٹک کرنے لگا۔ دراصل میں رضیہ کا ری ایکشن دیکھنا چاہتا تھا۔

 

کچھ دیر بعد وہ آئی اور بولی۔ کیوں کر رہے ہو یہ سب؟

 

میں نے انجان بنتے ہوئے کہا ۔۔ کیا کہہ رہی ہو۔

وہ بولی۔ تم نے سب دیکھ لیا تھا نا۔۔۔ میں چپ رہا۔۔

 

وہ بولی۔۔ پھر کچھ بولا کیوں نہیں اسے؟

 

کیا بولتا۔۔ جب تم خود ہی راضی تھیں۔

میں اپنی مرضی سے راضی نہیں تھی۔ میری مجبوری ہے۔

 

کیا مجبوری ہے۔ مجھے بھی تو بتاو۔

یہ کہ ہم اسکے گھر میں رہتے ہیں۔

یہ اسکا نہیں۔ چچا کا گھر ہے۔

 

ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میں نے بھی یہی کہا تھا۔ اس نے بولا کہ جاو۔۔ شکایت کردو ۔۔ کیا ہوگا؟ مجھے تھوڑا سا ڈانٹیں گے۔ شاید ایک آدھ ہاتھ بھی مار دیں۔ مگر تم بدنام ہوجاو گی۔ تمہارے ابو کو پتہ چلے گا۔ تو ایک سیکنڈ اس گھر میں نہیں رکیں گے۔ تم بے گھر ہوجاو گی۔

 

مجھے اب خالد پہ غصہ آرہا تھا۔ واقعی رضیہ مجبور تھی۔

 

اچھا سنو۔۔ وہ صرف یہی کرتا ہے جو آج کیا تھا۔۔ یا؟

 

نہیں۔۔ وہ جلدی سے بولی۔ میں نے اسے کبھی آگےنہیں بڑھنے دیا۔

ٹھیک ہے۔ میں کچھ کرتا ہوں۔

 

اچھا۔۔ کیا کروگے تم؟

 

تم ٹینشن مت لو۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔

 

حالانکہ سچ یہ تھا کہ میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ میں بس جھوٹی تسلی دے رہا تھا۔ اور وہ بھی میری تسلی میں آگئی۔ اور وہاں سے چلی گئی۔

میں بستر پہ لیٹا کافی دیر سوچتا رہا کہ کیا کرنا چاہیے۔ کافی دیر سوچنے کے بعد مجھے ایک حل سوجھا۔۔ گوکہ خطرہ بہت زیادہ تھا۔ مگر رسک تو لینا ہی تھا۔

یہ ترکیب آنے کے بعد میں اطمینان سے سوگیا۔

 

پھر کچھ دن یونہی گزر گئے۔

 

کچھ دن بعد ہماری گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو گئی۔ امی رضیہ کو لے کر نانی کے گھر چلی گئی۔ وہ ہر سال جاتی تھی اور کم از کم دو سے تین ہفتے رک کر اتی تھی۔ ابو اور چچا کام پر چلے جاتے تھے۔ خالد اپنی کلاسز جوائن کر لیتا تھا۔ اس کے ابا اسے سپورٹس کلاسز سویمنگ کلاسز اور کوچنگ کلاسز ہر جگہ بھیجتے تھے۔ مختصرا یہ کہ میں اور چاچی اکثر گھر پہ اکیلے ہوتے تھے۔ اور یہی میرے لیے گولڈن چانس تھا۔

یوں تو عموما چاچی اپنے فلور پر ہوتی تھی اور میں اوپر والے فلور پہ۔ مگر کبھی کبھار  سامنا ہو جاتا تھا۔ ایک دن ایسا ہی موقع تاڑ کر میں نیچے ایا دیکھا تو چاچی ائینے کے پاس کھڑی بال بنا رہی تھی۔ شاید ابھی ابھی نہا کے ائی تھی کیونکہ ان کے تمام بال بھیگے ہوئے تھے اور جسم بھی۔ سچ پوچھوں تو چاچی غضب کی لگ رہی تھی۔ میں نے چاچی کو کہا چاچی مجھے اردو بازار جانا ہے۔ وہ رکے لہجے میں بولی تو جاؤ میں کیا کروں۔ میں نے کہا میں اکیلا نہیں جا سکتا امی نے منع کیا ہے۔

تو؟

اپ میرے ساتھ چلیں نا ۔۔ ۔

 

کیا؟ میں ؟ کیوں ؟

 

چاچی امی ہوتی تو انہی کے ساتھ جاتا میرا جانا بہت ضروری ہے۔

نہیں بھئی۔۔  میں نہیں جا سکتی مجھے بہت کام ہے۔

چاچی پلیز چلیں نا ابھی تو سب گھر سے باہر ہیں کام اپ بعد میں بھی کر سکتی ہیں۔

تم کیوں پیچھے پڑے ہوئے ہو؟

چاچی پلیز مجھے کچھ بکس چاہیے۔ چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے ریویژن کرنا ہے۔۔

 

او ہو۔۔  اچھا کتنا ٹائم لگے گا۔

میں خوش ہو گیا بس انا جانا کرنا ہے۔ میں رکشا لے کر اتا ہوں۔۔

ٹھیک ہے جلدی انا۔

 

میں جانے لگا اور واپس پلٹ کر بولا۔۔ چاچی ایک بات بولوں

۔

بولو ۔۔

۔

اج اپ بہت بیوٹی فل لگ رہی ہیں۔

میں نے یہ کہا اور فورا پلٹ کر واپس چلا گیا۔ لیکن ایک لمحے میں میں نے اندازہ لگا لیا کہ میرا یہ جملہ سن کر ان کے چہرے پر شدید حیرت کے اثار تھے۔

یہ چاچی کی طرف ڈالا گیا میرا پہلا دانہ تھا ۔۔ اب چڑیا جال میں پھنستی ہے یا نہیں یہ تو وقت نے بتانا تھا

 

 

 

 

 

 

 

میں اوپر گیا اور اچھے سے تیار ہو گیا۔ پھر باہر جا کر رکشہ لایا اور تھوڑی دیر بعد ہم اردو بازار کی جانب گامزن تھے۔ امی باہر جاتے وقت برقعہ پہنتی تھی لیکن چاچی کو عادت نہیں تھی وہ صرف دوپٹہ یا چادر لیتی تھی۔ شاید انہیں لگتا تھا کہ ماڈرن عورتیں برقع نہیں پہنتی اور انہیں ماڈرن بننے کا بہت شوق تھا۔

رکشے میں میں چاچی سے بالکل چپک کے بیٹھا تھا۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ تھوڑا انکمفرٹیبل فیل کر رہی تھی لیکن منہ سے کچھ نہیں بولی۔

 

اردو بازار پہنچ کر میں نے ظاہری طور پر ایک دو چیزوں کی شاپنگ کی جن کی مجھے کچھ خاص ضرورت نہیں تھی۔ میرا اصل مقصد تو چاچی کے ساتھ باہر انا اور وقت بتانا تھا۔

فارغ ہو کر میں دوبارہ چاچی کے پاس ایا اور کہا چاچی چلو گھر چلیں۔

ہم رکشے میں بیٹھ کر واپسی گھر کی طرف گامزن تھے۔ راستے میں میں نے رکشے والے کو رکشہ روکنے کے لیے کہا۔ چاچی نے پوچھا کیا ہوا۔ میں نے کہا چاچی بھوک لگی ہے پہلے کچھ کھا لیں۔ چاچی بولیں گھر چل کے کھا لینا یہاں بیچ سڑک پہ کھاؤ گے کیا۔ میں بولا گھر بہت دور ہے اور یہیں قریب میں ایک ریسٹورنٹ ہے پہلے وہاں کچھ کھا لیتے ہیں۔

 

مجبورا چاچی مان گئی اور میرے ساتھ ا گئ۔

یہ ایک چھوٹا سا سنوپی جیسا ریسٹورنٹ تھا۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اس جگہ کی ریپوٹیشن اچھی نہیں ہے

یہ جگہ ڈیٹ مارنے اور چھچھورے پن کی لیے مشہور تھی۔ اندر جاتے ہی چاچی کا منہ بن گیا۔ کیونکہ وہاں کھلے عام سگریٹ اور شیشہ چل رہا تھا۔ لڑکے لڑکیاں سب انجوائے کر رہے تھے۔

میں نے اپنے لیے سینڈونچ منگایا چاچی نے اورنج جوس۔۔ پھر چاچی بولیں۔ جلدی کرو۔ یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے کہا کیا ہوا تو بولی دیکھو یہاں کیا کیا ہو رہا ہے ۔ میں نے کہا اپ ان سب چیزوں کو اگنور کریں صرف کھانے پہ توجہ دیں

۔ وہ بولی دیکھ رہے ہو۔ یہاں سب لڑکے لڑکیاں آئے ہوئے ہیں میرے جیسی کوئی عورت یا آدمی بھی نظر ا رہا ہے؟

 

میں نے شرارتی لہجے میں کہا تو کیا ہوا اپ کسی ینگ لڑکی سے  کم ہیں  کیا۔۔

 

یہ سن کر ان کے چہرے پر سرخی سے اگئی۔ مصنوعی  غصے سے بولی۔۔ اچھا بکو مت۔

میں جان بوجھ کر لیٹ کر رہا تھا کہ چاچی یہاں کا ماحول دیکھیں اور انجوائے کریں

بہرحال کھانا ختم ہوا جب بل دینے کی باری ائی تو میں نے جیب سے پیسے نکالے۔ میں اگر چاچی نے منع کر دیا۔ بولی۔۔ رہنے دو کل کو تمہاری اماں مجھے طعنے دے گی کہ میرے بچے کو کچھ کھلایا بھی نہیں۔

مگر میں جانتا تھا کہ یہ بہانہ ہے ۔۔ وہ اپنی خوشی سے بل دے رہی ہیں۔

 

گھر واپس ا کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور میں اوپر ۔

 

 میں نے ایک ہی دن میں دو مرتبہ چاچی کو لائن ماری تھی اور مجھے پورا یقین تھا اس کا رسپانس اچھا ملے گا ۔

اس کے بعد کافی دن تک کچھ نہیں ہوا لیکن چاچی کے رویے میں بہت تبدیلی اگئی۔ اب وہ میرے ساتھ کبھی روکھے لہجے میں بات نہیں کرتی تھی۔ بلکہ جب بھی کچھ اچھا بنتا میرے کھانے لیے خاص طور سے بھیجتی۔

پھر ایک دن بالاخر وہ لمحہ ا ہی گیا جس کے لیے میں نے سب پلاننگ کی تھی

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہوا یہ کہ ایک دن چاچی کے بھائی کے گھر سے فون ایا۔ کہ ان کی بھابھی کی طبیعت خراب ہے ان کے پاس کورنگی جانا تھا۔ خالد بزی تھا اور چچا گھر پہ تھے نہیں۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنی خدمات پیش کی۔ اور کہا میں اپ کو لے چلتا ہوں۔ اتفاق سے گھر میں خالد کی بائیک بھی موجود تھی۔ پہلے تو چاچی نے نخرے دکھائے پھر مان گئے۔

تھوڑی ہی دیر بعد میں چاچی کو اپنے پیچھے بٹھائے کورنگی جا رہا تھا۔ ابھی ہم بلوچ کالونی کا پل اترے ہی تھے کہ کھڈوں کے باعث میری بائک پھسل گئی چاچی اور میں ہم دونوں کیچڑ میں جا گرے۔ چوٹ تو نہیں لگی۔ مگر اٹھے تو کپڑوں کی حالت خراب تھی۔ ہسپتال ابھی بھی خالہ خاصہ دور تھا۔ میں نے چاچی سے پوچھا اب کیا کریں۔ چاچی بولی اس حالت میں ہسپتال تو جا نہیں سکتے اور گھر بھی بہت دور ہے۔ میں نے کہا پھر کیا کیا جائے؟

 

چاچی کچھ دیر سوچ کر  پھر بولی۔ یہاں محمود اباد کے قریب میری ایک دوست کا گھر ہے وہاں چلتے ہیں۔ میں چاچی کو بٹھا کر وہاں چل پڑا ۔ مگر گھر پہ تالا لگا تھا۔ چاچی نے وہیں کھڑے کھڑے اپنی دوست کو کال کی۔ اس نے بتایا کہ وہ رات تک ائے گی۔ چاچی نے اسے اپنی حالت اور مجبوری بتائی۔ اس نے کہا کہ اگر ایسی مجبوری ہے تو چابی برابر والے گھر میں ہے وہاں سے لے لو۔ چاچی نے ایسا ہی کیا تھوڑی دیر بعد ہم دونوں گھر کے اندر تھے۔

وہ گھر کافی بڑا اور شاندار تھا۔ چاچی نے کہا میرے لیے تو کپڑے مل جائیں گے تمہارے لیے کیا کروں۔ میں نے کہا دیکھ لیں جو بھی ہو سکتا ہے۔ چاچی اندر گئی اور الماری سے دو جوڑے نکال لائیں۔  میرے لیے ایک جینز اور ایک شرٹ تھی ۔ چاچی نے کہا کہ یہ ان کی دوست کے ہسبینڈ کے کپڑے ہیں ۔کپڑے مجھے تھوڑے ڈھیلے لگ رہے تھے لیکن گزارا ہو سکتا تھا۔

چاچی نے مجھے کہا کہ پہلے میں نہا کے آ جاتی ہوں پھر تم چلے جانا۔

اور شاید یہی وہ لمحہ تھا جس کا مجھے کافی عرصے سے انتظار تھا۔ چاچی نے کہا کہ دروازہ اندر سے پوری طرح لاک کر دوں تاکہ کوئی آ نہ جائے۔ پھر چاچی بیڈ روم کے ساتھ اٹیچ باتھ روم میں چلی گئی۔ میں باہر ہی رہا جیسے ہی میں نے دروازہ بند ہونے کی اواز سنی میں بھی بیڈروم میں چلا گیا۔

 

لیکن یہاں تو دروازہ بالکل بند تھا اندر جھانکنے کی کوئی جگہ نہیں تھی ۔ پھر میں کچھ سوچ کر باہر ایا اور گھر کا پورا جائزہ لینے لگا ۔ مجھے اندازہ ہوا کہ کمرے کے پیچھے ایک چھوٹی سی گیلری ہے۔ میں وہاں گیا اور میرا جیک پاٹ لگ گیا۔ وہاں ایک ایگزاسٹ فین لگا تھا پاس ہوئی ایک چھوٹا سا سٹول پڑا تھا۔ میں اسٹول پہ چڑھ کر اندر جھانکنے کی کوشش کرنے لگا۔ اور جب دیکھا تو لگا کہ شاید جنت کا نظارہ مجھے مل گیا۔

 

 اندر چاچی اپنے مکمل کپڑے اتار چکی تھی۔ میں نے آج تک کپڑوں میں جس بھاری جسم کو دیکھا تھا۔ اج وہ مادر پدر برہنہ میرے سامنے تھا۔ میں بیان نہیں کر سکتا اس وقت میری کیفیت کیا تھی۔ چاچی کے پستان بہت بڑے اور گول تھے۔ ان کے نپل موٹے اور اس پاس کا ایریا بہت ڈارک تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے ایک شعر یاد اگیا۔

 

"قدرت تو زرا دیکھیے پستان یار میں

پیوند فالسے کا لگا ہے انار میں"

 

پھر چاچی گھوم گئی۔ یہ نظارہ تو اور بھی خوبصورت تھا۔ چاچی کے بڑے بڑے، کم از کم 40 سائز کے چوتڑ میری انکھوں کے سامنے تھے۔ میں چونکہ خاصہ اوپر تھا اس کی چاچی میری طرف نہیں دیکھ سکتی تھی۔ لیکن میں چاچی کا گورا بدن مکمل طور پر دیکھ رہا تھا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اگلے دس منٹ میرے لیے نظارہ فردوس سے کم نہیں تھے۔ چاچی اپنا گورا برہنہ بدن مل مل کے نہیں نہا رہی تھی۔ اور میرا ہاتھ مسلسل شلوار کے اندر تھا۔

پھر جیسے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ اب وہ باہر آنے والی ہیں۔ میں فوراً وہاں سے ہٹا اور کمرے کے باہر جاکر بیٹھ گیا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ چاچی نے باہر آکر مجھے کہا کہ جاو نہا لو۔ لیکن میں ٹکٹکی باندھے چاچی کے گیلے کپڑوں سے باہر جھانکتے جسم کو دیکھ رہا تھا۔

میں اتنا گھور رہا تھا کہ آخر وہ جھینپ گئی۔ پھر چلا کر بولی۔۔۔ سنائی نہیں دے رہا؟

 

میں چونکنے کی ایکٹنگ کرتا ہوا بولا۔ جی چاچی۔۔

جاو نہا لو۔۔۔ اور جلدی کرو ہم پہلے ہی لیٹ ہوگئے ہیں۔

 

میں اندر گیا اور کپڑے اتار کر نہانا شروع کیا۔۔ میرے دماغ میں ابھی تک چاچی کا ننگا سراپا گھوم رہا تھا۔۔ یہاں تک کہ میرا لنڈ مکمل سخت ہوچکا تھا۔پھر مجھے شرارت سوجھی۔ میں نے چاچی کو آواز لگائی.  کہ میرے کپڑوں میں فیس واش رکھا ہوگا وہ دے دیں۔ چاچی نے کہا آتی ہوں۔۔ چاچی پاس آئیں اور دروازہ ناک کیا۔ اور میں اسی لمحے کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے آو دیکھا نہ تاو۔ پورا دروازہ پٹ کھول دیا۔ اب میں ننگ دھڑنگ چاچی کے سامنے تھا۔ اس حالت میں کہ میرا "سانپ" پھنکاریں مار رہا تھا۔ چاچی نے مجے دیکھا اور دو تین سیکنڈ کے لیے جیسے سکتے میں آگئیں۔ پھر شاید انہیں یاد آیا کہ اس وقت انہیں چیخنا چاہیے۔ وہ زوردار چیخ مار کر وہاں سے بھاگ گئی۔ بھاگتے وقت وہ فیس واش باتھ روم میں پھینک گئی تھی۔ مجھے چاچی کی حالت پہ بہت ہنسی آئی۔ میں نے فیس واش اٹھایا۔ اور نہانے لگا۔

دس منٹ بعد میں باہر آیا۔ چاچی کمرے سے بہت دور بالکل مین گیٹ کے پاس کھڑی تھیں۔ میں انکے پاس گیا اور بولا۔۔ چاچی۔ آئی ایم سوری۔۔

 

چاچی میری طرف دیکھے بغیر بولیں۔ بات مت کرو مجھ سے۔۔

 

اب اصولاً مجھے وہاں چپ یا شرمندہ ہوجانا چاہیے تھا۔ مگر میں نے ڈھٹائی دکھانے کا فیصلہ کیا۔۔

 

اوکے نہیں کرتا۔۔ یہ کہہ کر میں پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ چاچی نے پلٹ کے مجھے دیکھا۔ اور بولی۔۔ بیٹھ کیوں گئے۔۔ چلنا نہیں ہے؟

 

میں نے کہا۔۔ آپ کو مجھ سے بات تک نہیں کرنی۔ تو اتنا لمبا سفر کیسے کٹے گا؟ رہنے دیں۔۔

 

بکو مت۔۔ چاچی بولیں۔ میری بھابی بیمار ہے۔ ورنہ تمہیں تو ایسا مزا چکھاتی کہ یاد رکھتے۔۔

 

میں نے زیر لب کہا۔۔ ارے اسی مزے کا تو انتظار ہے۔۔ چاچی بولی۔۔ کیا کہا ؟

میں نے کہا کچھ نہیں۔۔ مگر آپ فیصلہ کرلیں۔ مجھ سے بات بند کرنی ہے یا میرے ساتھ چلنا ہے۔۔

 

چاچی بولی۔ کتنے ڈھیٹ ہو تم۔ اس حرکت پر بھی شرمندہ نہیں ہو۔۔

 

میں نے کہا۔ شرمندہ تھا۔ تبھی تو سوری بولا۔۔ میں بے دھیانی میں تھا۔ یاد نہیں رہا کہ آپکے سامنے اس حالت میں نہیں آنا چاہیے۔۔۔ اور یہ سب آپکی غلطی ہے۔۔ آپ نے اتنی جلدی مچا رکھی ہے کہ میں سب بھول گیا۔۔

چاچی دو تین سیکنڈ چپ رہیں۔پھر بولیں۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔۔ معاف کیا۔ اب چلو۔۔ میں نے کہا۔۔ ویری گڈ۔۔ اب چلتے ہیں۔

 

اگلے کچھ منٹوں میں ہم پھر کورنگی روڈ پر تھے۔

 

راستے میں میں نے کہا ۔۔ چاچی ایک بات پوچھوں۔۔ آپ نے مجھے پہلے کبھی اس حالت میں دیکھا ہے؟

 

چاچی بولی۔۔ بکواس مت کرو۔۔ میں کیوں دیکھو گی تمہیں ایسے؟

 

یہاں میں نے نوٹ کیا کہ چاچی اب مصنوعی غصہ دکھا رہی تھیں۔

 

میں نے کہا کیوں؟ بچپن میں نے نہیں دیکھا؟

 

وہ بولی۔ ہاں بچپن میں تو دیکھا ہے۔۔

 

میں نے کہا۔۔ تو پھر چونک کیوں گئی تھی؟

 

بولی۔۔ تم پاگل ہو کیا۔۔ بچپن میں اور اب میں بہت فرق ہے۔۔

 

میں نے اچھا۔۔ کیا فرق ہے؟

 

بولی۔ ننھے مت بنو۔۔

 

میں نے کہا۔۔ ارے ہاں۔۔ فرق تو بہت ہے۔۔ پہلے ڈیڑھ انچ کی تھی۔ اب سات انچ کا ہوگیا ہے۔

 

آب چاچی کا پارہ چڑھ گیا۔۔

 

بے شرم۔۔ زلیل۔۔ کتے انسان۔۔

 

چاچی کی یہ گالیاں سن کر مجھے بہت ہنسی آئی۔ میں اتنا ہنسا کہ خود چاچی کو بھی ہنسی آگئی۔ وہ ہنستے ہنستے بولی۔۔ تم کتنے گھٹیا انسان ہو۔۔ مجھے اتنا غصہ آرہا تھا۔ اب ہنسنے پر مجبور کر دیا۔۔

 

ایسے ہی باتیں کرتے کرتے ہم ہسپتال پہنچ گئے۔

 

 

Post a Comment

0 Comments